اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
ہر مست میرے پیر مغاں کا مرید ہے
واعظ عبث یہ ذکر عذاب شدید ہے
اک توبہ قفل رحمت حق کی کلید ہے
وحشت نے ہم کو جامۂ خاکی پہنا دیا
اے عقل اب یہ کاہے کی قطع و برید ہے
اے رہروان جادۂ الفت بڑھے چلو
یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ منزل بعید ہے
کیونکر نہ قرب حق کی طرف دل مرا کیجیے
گردن اسیر حلقۂ حبل الورید ہے
اب جام جم کی مجھ کو ضرورت نہیں رہی
وہ دل ملا ہے جس میں دو عالم کی دید ہے
واللیل ہے کہ زلف معنبر حضور کی
یہ روئے پاک ہے کہ کلام مجید ہے
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
خنجر بکف وہ کہتے ہیں اب آئے سامنے
کس کو خیال وصل ہے ارمان دید ہے
مجھ خستہ دل کی عید کا کیا پوچھنا حضور
جن کے گلے سے آپ ملے ان کی عید ہے
تو دیکھے اور بندے پہ تیرے عذاب ہو
یارب یہ تیری شان کرم سے بعید ہے
شیشے کا معتقد ہے ارادت ہے جام سے
کس پیر مے فروش کا بیدمؔ مرید ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |