امور خیر میں کچھ اہتمام ہو نہ سکا
امور خیر میں کچھ اہتمام ہو نہ سکا
مال نیک ہو جس کا وہ کام ہو نہ سکا
بغیر منزل اول قیام ہو نہ سکا
جب آیا کوچ کا دن پھر مقام ہو نہ سکا
ہر ایک مرتکب معصیت یہاں سے گیا
کسی بشر سے فرشتے کا کام ہو نہ سکا
قدم کسی کی نہ ٹھہری جب آب و دانہ اٹھا
گہر سے بطن صدف میں قیام ہو نہ سکا
شراب آب خجالت نگاہ میں ٹھہرے
کہ چشم یار سے ہم چشم جام ہو نہ سکا
نزاکت اس کے قدم چومتی ہے دیکھا ہے
کڑی پہن لیے جس دن خرام ہو نہ سکا
ملے نہ ان سے ملے ہم جدا ہوئے جب سے
پھٹا دل ایسا کہ پھر التیام ہو نہ سکا
ہر ایک رنج کو راحت سمجھ لی شکر کیا
کرے شکایت آقا غلام ہو نہ سکا
کسی کے ملک اطاعت میں عاملی نہ چلے
فساد نفس رہا انتظام ہو نہ سکا
ہوا ہے آتش گل میں لگی یہ تلووں سے
اڑے شرر کی طرح ہم قیام ہو نہ سکا
گئے جو شکوے کو اپنا سا منہ وہ لے کے پھرے
ملی زبان نہ منہ میں کلام ہو نہ سکا
شراب ترک کی ہم نے رقیب کے ہاتھوں
لہو کے گھونٹ پئیں ہم مدام ہو نہ سکا
کبھی وفائی نہ ہلنے دیا لب فریاد
بتوں سے حشر میں بھی انتقام ہو نہ سکا
ہزار نعمت دنیا نے ہم کو للچایا
حلال لقمہ ہمارا حرام ہو نہ سکا
نصیب ہو نہ ترقی تو باڑھ ہے بیکار
ہلال تیغ کا ماہ تمام ہو نہ سکا
ہے یادگار زمانے میں اپنی تنہائی
فقیر کا کوئی قائم مقام ہو نہ سکا
ہزار موج صفت بحرؔ دست و پا مارے
حباب ساں مگر اپنا قیام ہو نہ سکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |