Jump to content

انار کلی

From Wikisource
انار کلی
by یوسف ظفر
330918انار کلییوسف ظفر

تیرے غم میں کتنا نازک ہو گیا ہے دل کہ اب
اس بھرے بازار میں
ہر صدا اک اجنبی احساس کا آئینہ ہے
آج تیرے غم سے فارغ ہو کے میں
بہہ رہا ہوں لذت اظہار کے سیلاب میں
لڑکھڑاتے رینگتے لنگڑاتے ہنستے بولتے
لفظ اور ان کا دھواں خوشبو چمک
چل رہے ہیں مل کے بے آہنگ آوازوں کے رنگ
اجنبی ہونٹوں کے لفظ
آرزؤں کے غبارے حسرتوں کی تتلیاں
چار سو اڑتی ہیں میں خاموش ہوں
گفتگو کے دائروں میں پھیل کر
رنگ بھرتا جا رہا ہے ان تمناؤں کا خوں
جن کے لفظوں نے زباں دی سننے والوں کا خیال
ان میں ڈوبا جا رہا ہے بولتے لفظوں کا سحر
اس کو اپنے دام میں لاتا ہوا
پھیل کر آتا ہے مجھ تک پیچ و خم کھاتا ہوا
اور میں
اس کی کیفیت کا غازہ اپنے چہرے پر لگائے
اک نئی آواز کے سائے میں ہوں
چاہتا ہوں بند آنکھوں سے میں اس سیلاب میں
کود جاؤں اور نظارہ کروں
اپنے کانوں سے دلوں کے ترجماں الفاظ کا
صورت گویا سے بڑھ کر ہے سخن انداز کا

نقرئی آواز میں لفظوں کا نور
اپنے ہم راہی کے دل پر نغمہ بار
جیسے شبنم دامن گل پر گرے بے اختیار

اس صدا میں حرف ہیں یا موم کے آنسو ہیں جو
شمع کے پہلو میں گرتے جا رہے ہیں کیا کروں
آنکھیں کھولوں اور اس بچی کی صورت دیکھ لوں
اس صدا میں نخوت زر کا جلال
جیسے پربت سے گرے جھرنا کوئی
سنگ اسود کی چٹانیں توڑنا

دوست ہم سن ہم سخن
جن کے سادہ صاف سے انداز میں
کوئی ماضی کوئی مستقبل نہیں
حال کے لمحات رنگیں قہقہے پھولوں کے ہار
اور اس آواز میں
زیست کی محرومیاں زنجیر در زنجیر ہیں
کھولتے لفظوں کی بھاپ
دل کے آئینے کو دھندلاتی ہے ہاتھ
خود بخود بڑھتا ہے اپنی جیب کی جانب مگر
یہ گدا بھی تو نہیں
اور اس آواز میں حرص و ہوس کا زہر ہے
لفظ تیروں کی طرح اڑتے ہوئے
سینۂ احساس میں پیوست ہوتے ہیں مگر
دل سے نفرت کے سوا کوئی صدا اٹھتی نہیں
اور یہ آواز میری دوست دار دل تری آواز ہے
کتنے نغمے گونجتے ہیں کتنی راتوں کا خمار
کتنے رنگوں کا تلاطم کتنے پھولوں کی ہنسی
سرسراتے ریشمیں ملبوس کے مانند یہ تیری صدا
ڈھانپتی ہے گرمئی آغوش سے پرواز میں
کھو گئی ہیں ساری آوازیں تری آواز میں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.