Jump to content

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا

From Wikisource
انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا
by حیدر علی آتش
294806انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہواحیدر علی آتش

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا
یوسف سے تیرے حسن کا پلہ گراں ہوا

روئے زمیں پہ ایسا میں بسمل تپاں ہوا
اڑ کر مرا لہو شفق آسماں ہوا

اس برق وش کا عشق نہانی عیاں ہوا
ابر سیاہ آہوں کا میرے دھواں ہوا

پیری میں مجھ کو عشق حسین جواں ہوا
بار دگر کبادے میں زور کماں ہوا

اہل زمیں سے صاف کہاں آسماں ہوا
کس روز برج ماہ میں فرش کتاں ہوا

معدوم داغ عشق کا دل سے نشاں ہوا
افسوس بے چراغ ہمارا مکاں ہوا

دو ٹکڑے ایک وار میں خود حباب ہے
گرداب موج تیغ کو سنگ فساں ہوا

دیکھا جو میں نے اس کو سمندر کی آنکھ سے
گل زار آگ ہو گئی سنبل دھواں ہوا

ملتا نہیں دماغ ہی گیسوئے یار کا
کچھ ان دنوں میں مشک کا سوداگراں ہوا

خوش چشموں کے فراق میں کھائے یہ پیچ و تاب
شاخ غزال اپنا ہر اک استخواں ہوا

سختیٔ راہ عشق سے واقف ہوئے نہ پاؤں
جوش جنوں مرے لیے تخت رواں ہوا

انبوہ عاشقاں سے ہوا حسن کو غرور
کثرت سے مشتری کی یہ سوداگراں ہوا

پیوند خاک ہو گئے اک بت کی راہ میں
پتھر ہماری قبر کا سنگ نشاں ہوا

پھینکا گیا نہ پیر فلک نعل کی طرح
کوئی نہ طفل اشک ہمارا جواں ہوا

تو دیکھنے گیا لب دریا جو چاندنی
استادہ تجھ کو دیکھ کے آب رواں ہوا

انساں کو چاہئے کہ نہ ہو ناگوار طبع
سمجھے سبک اسے جو کسی پر گراں ہوا

اس گل سے عرض حال کی حسرت ہی رہ گئی
کانٹے پڑے زباں میں جو میل بیاں ہوا

اللہ کے کرم سے بتوں کو کیا مطیع
زیر نگیں قلمرو ہندوستاں ہوا

انصاف میں نے عالم اسباب میں کیا
بنوائی چاندنی جو میسر کتاں ہوا

گردش نے اس کی سرمہ کئے اپنے استخواں
چکی ہمارے پیسنے کو آسماں ہوا

قاتل کی تیغ سے رہ ملک عدم ملی
آہن ہمارے واسطے سنگ نشاں ہوا

فکر بلند نے مری ایسا کیا بلند
آتشؔ زمین شعر سے پست آسماں ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.