ان پہ رشک آتا ہے یہ لوگ ہیں قسمت والے
ان پہ رشک آتا ہے یہ لوگ ہیں قسمت والے
راہ میں تیری مٹے تیری محبت والے
تیرے ہی غم میں مرے تیری محبت والے
پاک دل لے کے گئے پاک طبیعت والے
کھائے لیتے ہیں عبث جان نصیحت والے
عشق سے باز نہ آئیں گے محبت والے
اس کے سودائیوں کو نام و نشاں سے مطلب
بے نشاں لوگ ہیں یہ عشق و محبت والے
منزل عشق میں آتے ہی ہوئے خاک بسر
مٹ گئے مٹنے سے پہلے ہی محبت والے
آ گیا بار نظر سے عرق ان گالوں پر
یہ ہیں وہ ہم جنہیں کہتے ہیں نزاکت والے
نہ ہمیں شاہوں سے مطلب نہ امیروں سے غرض
ہم حسینوں کے ہیں بندے یہ ہیں دولت والے
دار پر چڑھ کے بھی منصور کی مستی نہ گئی
کلمہ پڑھتے ہیں اسی مست کا سب متوالے
تیرے قامت پہ ہے زیبا وہی اطلس کی قبا
اپنی صورت نہ بدل چاند سی صورت والے
وہ جدھر جاتا ہے چلاتی ہے یوں خلق خدا
دیکھتا جا ادھر او چاند سی صورت والے
یہ مرے عرس کی شب ہے کہ عروسی کی ہے رات
ہیں حسینان گل اندام زیارت والے
یا خدا وصل کبھی ہوگا نصیب اس بت کا
ہم سے کم بخت بھی کہلائیں گے قسمت والے
میرے گھر آیا جو وہ مہر منیر اے اکبرؔ
مجھ سے کہتا ہے کہ اب تو ہوئے قسمت والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |