ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا
Appearance
ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا
درد پہلو میں جہاں بھی تھا وہیں دل ہو گیا
بارہا دیکھا ہے دل نے او مرے محو خرام
حشر اٹھا اور ترے قدموں میں شامل ہو گیا
دل جہاں اچھلا فضائے دو جہاں پر چھا گیا
عرصۂ کونین جب سمٹا مرا دل ہو گیا
بے خبر رہنا ہی اچھا اس جہان غیر میں
مٹ گیا جو واقف آداب محفل ہو گیا
جو نگاہ شوق اٹھی حسن بن کر رہ گئی
جو قدم ہم نے اٹھایا نقش منزل ہو گیا
یا کبھی منزل تھی مقصود مذاق جستجو
یا مذاق جستجو مقصود منزل ہو گیا
ہائے باسطؔ یہ مرے خون تمنا کا اثر
اور بھی رنگین کچھ دامان قاتل ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |