ان کا جشن سال گرہ
اک مجمع رنگیں میں وہ گھبرائی ہوئی سی
بیٹھی ہے عجب ناز سے شرمائی ہوئی سی
آنکھوں میں حیا لب پہ ہنسی آئی ہوئی سی
ہونٹوں پہ فدا روح بہار و گل و نسریں
آنکھوں کی چمک رو کش بزم مہ و پرویں
پیراہن زر تار میں اک پیکر سیمیں
لہریں سی وہ لیتا ہوا اک پھول کا سہرا
سہرے میں جھمکتا ہوا اک چاند سا چہرا
اک رنگ سا رخ پر کبھی ہلکا کبھی گہرا
ہر سانس میں احساس فراواں کی کہانی
خاموشئ محبوب میں اک سیل معانی
جذبات کے طوفاں میں ہے دوشیزہ جوانی
فطرت نئے جذبات کے در کھول رہی ہے
میزان جوانی میں اسے تول رہی ہے
لب ساکت و صامت ہیں نظر بول رہی ہے
سرشار نگاہوں میں حیا جھوم رہی ہے
ہیں رقص میں افلاک زمیں گھوم رہی ہے
شاعر کی وفا بڑھ کے قدم چوم رہی ہے
اے تو کہ ترے دم سے مری زمزمہ خوانی
ہو تجھ کو مبارک یہ تری نور جہانی
افکار سے محفوظ رہے تیری جوانی
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زور شباب اور زیادہ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |