ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
Appearance
ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
یہ بھی اک طرح کی نادانی ہے
وصل سے آج نیا ہے انکار
تم نے کب بات مری مانی ہے
آپ دیتے ہیں تسلی کس کو
ہم نے اب اور ہی کچھ ٹھانی ہے
حال بن پوچھے کہے جاتا ہوں
اپنے مطلب کی یہ نادانی ہے
کس قدر بار ہوں غم خواروں پر
کیا سبک میری گراں جانی ہے
گھر بلا کر وہ مجھے لوٹتے ہیں
یہ نئی طرح کی مہمانی ہے
ہم سے وحشت کی نہ لے او مجنوں
ہم نے بھی خاک بہت چھانی ہے
خاک اڑتی ہے جدھر جاتا ہوں
کیا مقدر کی پریشانی ہے
گھر بھی ویرانہ نظر آتا ہے
ہائے کیا بے سر و سامانی ہے
آئی کیوں ان کی شکایت لب تک
ہم کو خود اس کی پشیمانی ہے
کہیں دو دن نہ رہا جم کے حفیظؔ
ایک آوارہ ہے سیلانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |