اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
Appearance
اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
آؤں تو کہیں تیرا ٹھکانا نہیں ملتا
ملنا جو مرا چھوڑ دیا تو نے تو مجھ سے
خاطر سے تری سارا زمانا نہیں ملتا
آوے تو بہانے سے چلا شب مرے گھر کو
ایسا کوئی کیا تجھ کو بہانا نہیں ملتا
کیا فائدہ گر حرص کرے زر کی تو ناداں
کچھ حرص سے قاروں کا خزانا نہیں ملتا
بھولے سے بھی اس نے نہ کہا یوں مرے حق میں
کیا ہو گیا جو اب وہ دوانا نہیں ملتا
پھر بیٹھنے کا مجھ کو مزہ ہی نہیں اٹھتا
جب تک کہ ترے شانے سے شانا نہیں ملتا
اے مصحفیؔ استاد فن ریختہ گوئی
تجھ سا کوئی عالم کو میں چھانا نہیں ملتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |