اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
Appearance
اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
تس پہ ترے پازیب کی جھنکار غضب ہے
کیوں کر نہ تجھے دوڑ کے چھاتی سے لگا لوں
پھولوں کا گلے میں ترے یہ ہار غضب ہے
جب دیکھوں ہوں کرتی ہے مرے دل کو پریشاں
آشفتگیٔ طرۂ طرار غضب ہے
اے کاش یہ آنکھیں مجھے یہ دن نہ دکھاتیں
اس شوق پہ محرومیٔ دیدار غضب ہے
خورشید کا منہ ہے کہ طرف ہو سکے اس سے
یعنی وہ بر افروختہ رخسار غضب ہے
میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے
یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے
اب تک حرم وصل سے محرم نہ ہوئے ہم
کعبے میں حجاب در و دیوار غضب ہے
گر ایک غضب ہو تو کوئی اس کو اٹھاوے
رفتار غضب ہے تری گفتار غضب ہے
فرہاد بچا عشق سے نے قیس نہ وامق
جی لے ہی کے جاتا ہے یہ آزار غضب ہے
اے مصحفیؔ اس شوق سے ٹک بچ کے تو چلنا
سنتا ہے میاں وہ بت خوں خار غضب ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |