اونچا مکان
بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے تعمیر کا اک نقش عجیب
اے تمدن کے نقیب!
تیری صورت ہے مہیب!
ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا
ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں مگر
ان میں اک جوش ہے بیداد کا فریاد کا اک عکس دراز
اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے
کیا کوئی روح حزیں
ترے سینے میں بھی بے تاب ہے تہذیب کے رخشندہ نگیں
گھٹ کے لہریں ترے گیتوں کی سنیں مجھ کو نظر آنے لگا
ایک تلخابہ کسی بادۂ بد رنگ کا اک ٹوٹے ہوئے ساغر میں
نشۂ مے سے نظر دھندلی ہوئی جاتی ہے
رات کی تیرہ فضا کیوں مجھے گھبراتی ہے؟
رات کی تیرہ فضا میں تری آنکھوں کی چمک مجھ کو ڈرا سکتی نہیں ہے میں تو
اس سے بھی بڑھ کے اندھیرے میں رہا کرتا تھا
اور اس تیرگیٔ روح میں درخشاں تھے ستارے دکھ کے
اور کبھی بھول میں ہر نجم درخشاں سے لپک اٹھتے تھے شعلے سکھ کے
جیسے روزن سے ترے تان لپکتی ہوئی پھیلاتی ہے بازو اپنے
جذب کر لیتا ہے پھر اس کو خلا کا دامن
یاد آنے لگے تنہائی میں بہتے ہوئے آنسو اپنے
وہی آنسو وہی شعلے سکھ کے
لیکن اک خواب تھا اک خواب کی مانند لپک شالوں کی تھی
مری تخئیل کے پر طائر زخمی کے پروں کے مانند
پھڑپھڑاتے ہوئے بے کار لرز اٹھتے ہیں
مرے اعضا کا تناؤ مجھے جینے ہی نہ دیتا تھا تڑپ کر ایک بار
جستجو مجھ کو رہائی کی ہوا کرتی تھی
مگر افسوس کہ جب درد دوا بننے لگا مجھ سے وہ پابندی ہٹی
اپنے اعصاب کو آسودہ بنانے کے لیے
بھول کر تیرگیٔ روح کو میں آ پہنچا
اس بلندی کے قدم میں نے لیے
جس پہ تو سیکڑوں آنکھوں کو جھپکتے ہوئے استادہ ہے
ترے بارے میں سنا رکھی تھیں لوگوں نے مجھے
کچھ حکایات عجیب
میں یہ سنتا تھا ترے جسم گراں بار میں بستر ہے بچھا
اور اک نازنیں لیٹی ہے وہاں تنہائی
ایک پھیکی سی تھکن بن کے گھسی جاتی ہے
ذہن میں اس کے مگر وہ بیتاب
منتظر اس کی ہے پردہ لرزے
پیرہن ایک ڈھلکتا ہوا بادل بن جائے
اور در آئے اک ان دیکھی انوکھی صورت
کچھ غرض اس کو نہیں ہے اس سے
دل کو بھاتی ہے نہیں بھاتی ہے
آنے والے کی ادا
اس کا ہے ایک ہی مقصود وہ استادہ کرے
بحر اعصاب کی تعمیر کا اک نقش عجیب
جس کی صورت سے کراہت آئے
اور وہ بن جائے ترا مد مقابل پل میں
ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہو جائے
اور وہ نازنیں بے ساختہ بے لاگ ارادے کے بغیر
ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آنے لگے
شب کے بے روح تماشائی کو
بھول کر اپنی تھکن کا نغمہ
مختصر لرزش چشم در سے
ریگ کے قصر کے مانند سبک سار کرے
بحر اعصاب کی تعمیر کا اک نقش عجیب
ایک گرتی ہوئی دیوار کی مانند لچک کھا جائے
یہ حکایات مرے ذہن میں اک بوئے خراماں بن کر
جب کبھی چاہتی تھیں رقص کیا کرتی تھیں
اور اب دیکھتا ہوں سیکڑوں آنکھوں میں تری
ایک ہی چشم درخشاں مجھے آتی ہے نظر
کیا اسی چشم درخشاں میں ہے شعلہ سکھ کا؟
ہاتھ سے اپنے اب اس آنکھ کو میں بند کیا چاہتا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |