اٹھئے تو کہاں جائیے جو کچھ ہے یہیں ہے
Appearance
اٹھئے تو کہاں جائیے جو کچھ ہے یہیں ہے
باہر ترے گھر کے تو نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
ہم ہیں کہ سر نقش قدم سیکڑوں سجدے
وہ ہے کہ جہاں دیکھیے بس چیں بہ جبیں ہے
صحرا میں پھراتی ہے مجھے خانہ خرابی
یہ ڈھونڈ رہا ہوں کہ مرا گھر بھی یہیں ہے
آتی نہیں نزدیک خیالوں کے یہ دنیا
وہ بزم بھی یا رب کوئی فردوس بریں ہے
تا حد تخیل فقط اک جلوہ ہے یا دل
دنیا میں ہماری نہ فلک ہے نہ زمیں ہے
جی بھر کے ذرا دیکھ تو لیں حسن کے جلوے
پھر کس کو انہیں چھوڑ کے جینے کا یقیں ہے
وہ درد دروں جسم میں یوں پھیل گیا ہے
پڑتا ہے جہاں ہاتھ سمجھتا ہوں یہیں ہے
رہتا ہوں سہاؔ اہل حرم میں بھی نمایاں
ہوتے ہیں اشارے یہ خرابات نشیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |