اٹھنے میں درد متصل ہوں میں
Appearance
اٹھنے میں درد متصل ہوں میں
گرد باد غبار دل ہوں میں
کعبے تک ساتھ آیا شوق صنم
ہائے بت خانہ کیا خجل ہوں میں
حیف کس مدعی کی جاں ہے تو
ہائے کس آشنا کا دل ہوں میں
تجھ کو دوں کیا جواب اے داور
اپنے ہی آپ منفعل ہوں میں
تیری نازک تنی پہ غور نہ کی
اپنی امید سے خجل ہوں میں
نہ ہلا اس کے در سے تا محشر
مرقد آرزو کی سل ہوں میں
خاک ہستی کی گرد باد ہے تو
آتش دل کی آب و گل ہوں میں
حد نہیں کوئی اپنی حالت کی
کہ نگاہوں میں منتقل ہوں میں
چھا گیا یہ تصور اس بت کا
نقش چیں اور بت چگل ہوں میں
ذرہ سی زندگی پہاڑ ہوئی
آنکھ کا اپنی آپ تل ہوں میں
اے قلقؔ کیوں کہ چھوڑ دوں وحشت
وضع میں اپنی مستقل ہوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |