اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
Appearance
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اک حباب کا
کیوں چھوڑتے ہو درد تہ جام مے کشو
ذرہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا
ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جام مے
رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا
ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا
اس دشت پر سراب میں بہکے بہت پہ حیف
دیکھا تو دو قدم پہ ٹھکانا تھا آب کا
زاہد مریض عشق پہ ہو شرب مے حرام
بارے یہ مسئلہ ہے تری کس کتاب کا
جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائمؔ کی ہو جگہ
آخر وہ خاک پا ہے شہ بو تراب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |