اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
Appearance
اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
موج دریا آب ساحل آشنا ہو جائے گی
تہ کا اندیشہ رہے گا پھر نہ ساحل کی ہوس
دل سے جب قطع امید بے وفا ہو جائے گی
شب کی شب بزم طرب ہے پردہ دار انقلاب
صبح تک آئینۂ عبرت نما ہو جائے گی
جان ایماں ہے ابھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیفیت میں ڈوب کر کیا جانے کیا ہو جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |