اپنی ہستی سے تھا خود میں بد گماں کل رات کو
اپنی ہستی سے تھا خود میں بد گماں کل رات کو
کچھ نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں کل رات کو
چاندنی برسات صحن گلستاں دل کش ہوا
تھیں ہجوم غم میں یہ رنگینیاں کل رات کو
وسعت تخیئل کے حلقے میں تھا عرش بریں
دیکھتی تھیں چشم دل کون و مکاں کل رات کو
مل رہے تھے دست الفت سے مجھے جام شراب
مہرباں تھا وہ بت نا مہرباں کل رات کو
وہ محبت کی نگاہیں وہ محبت کے کلام
ہاں دوبالا تھی ادائے دل ستاں کل رات کو
ہر نظر پیغام ہر انداز میں رقصاں امید
اور ہی تھا اس کا طرز امتحاں کل رات کو
عفت الفت سے تھی آئینۂ دل کی جلا
ورنہ تھا جذبات کا دریا رواں کل رات کو
ذوق سے وہ سن رہے تھے داستان غم مری
ہو رہا تھا انقلاب آسماں کل رات کو
دل کی اک آواز تھی اس بزم میں تفسیر غم
ہو چکے تھے وہ بھی مجبور فغاں کل رات کو
تفرقہ بے اعتمادی دشمنی مکر و فریب
تھی تری تعبیر اے ہندوستاں کل رات کو
سو چکے تھے چند ہی گھنٹوں میں ارباب نشاط
صبح تک تھا ساتھ وہ آرام جاں کل رات کو
رنگ صہبا چشم نرگس میں تھا آسیؔ وقت صبح
جاگنے سے ہو رہی تھیں خوں فشاں کل رات کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |