اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
Appearance
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے
او نمک پاش تجھے اپنی ملاحت کی قسم
بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمک داں ہو جائے
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہئ داماں ہو جائے
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے
سینۂ شبلی و منصور تو پھونکا تو نے
اس طرف بھی کرم اے جنبش داماں ہو جائے
آخری سانس بنے زمزمۂ ہو اپنا
ساز مضراب فنا تار رگ جاں ہو جائے
تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے
ابھی بیدمؔ رسن و دار کا ساماں ہو جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |