Jump to content

اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہاں پچھانت

From Wikisource
اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہاں پچھانت (1920)
by علیم اللہ
304409اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہاں پچھانت1920علیم اللہ

اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہاں پچھانت
'من عَرَفَ' کو نہ بوجھا 'قد عَرَفَ' سوں جہالت

ہے فرض بوجھ اول اپنا پچھے خدا کو
بے بوجھ بندگی ہے سب رنج اور ملامت

جنت کی تو مزدوری بوجھا ہے بندگی کو
بخشش نہیں ہے ہرگز جز لطف اور عنایت

حرص و ہوا میں پڑ کر حق سوں ہوا ہے باطل
پھر مانگتا ہے جنت کیا نفس بد خصالت

بن قلب کی حضوری منظور کیوں پڑے گا
روزہ نماز رسمی سجدہ سجود طاعت

معبود کے مقابل عابد کو عبدیت ہے
غیبت میں چپ رجھانا کیا محض ہے خجالت

تن نفس اور دل روح سر نور ذات مل کر
اپنے میں حق کو پانا ہے افضل العبادت

بن پیر کے خدا کو پایا نہ کوئی ہرگز
کامل کو کیوں پچھانے بے صدق و بے ہدایت

نہیں ہے علیمؔ کو سچ تقویٰ عمل پہ اپنے
دیدار کا صنم کے کافی ہے استقامت


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.