Jump to content

اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں

From Wikisource
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
by سخی لکھنوی
303795اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیںسخی لکھنوی

اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
سچ ہے شاعر بھی ہوا باندھتے ہیں

پھر سر دست مرا خوں ہوگا
پھر وہ ہاتھوں میں حنا باندھتے ہیں

گٹھری پھولوں کی وہ ہو جاتی ہے
جن میں وہ اپنی قبا باندھتے ہیں

اجی دیکھیں دل عاشق تو نہیں
آپ آنچل میں یہ کیا باندھتے ہیں

اے سخیؔ آج تو کچھ خیر نہیں
وہ کمر ہو کے خفا باندھتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.