اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
Appearance
اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
دشوار تھا یہ کام پر آساں نکل گیا
بک بک سے ناصحوں کی ہوا یہ تو فائدہ
میں گھر سے چاک کر کے گریباں نکل گیا
پھر دیکھنا کہ خضر پھرے گا بہا بہا
گر سوئے دشت میں کبھی گریاں نکل گیا
خوبی صفائے دل کی ہماری یہ جانیے
سینے کے پار صاف جو پیکاں نکل گیا
ہنگامے کیسے رہتے ہیں اپنے سبب سے واں
ہم سے ہی نام کوچۂ جاناں نکل گیا
فرقت میں کار وصل لیا واہ واہ سے
ہر آہ دل کے ساتھ اک ارماں نکل گیا
بہتر ہوا کہ آئے وہ محفل میں بے نقاب
عارفؔ غرور ماہ جبیناں نکل گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |