اچھی کتاب
پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اورکتاب کتاب میں فرق ہے۔
میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔ پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔
اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلفی اور دوستی کی باتیں شروع کردوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے ؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹا ل (کتب فروش کی الماری ) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالانکہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے۔
میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسو س کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتاہوں۔ میں اس طرح سینکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے و بال ہوگی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔
بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضو ل ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنی مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔ لو گ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیاپن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخل فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کیاکر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔
بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔
اگرہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصاب تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کردیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے۔
غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہوگا۔ اس کا اکثر حِصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیع وقت ودماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔
ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’عمدہ کتاب حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |