اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
شرابی جمع ہیں مے خانہ میں ٹوپی اچھلتی ہے
بہار مے کشی آئی چمن کی رت بدلتی ہے
گھٹا مستانہ اٹھتی ہے ہوا مستانہ چلتی ہے
زخود رفتہ طبیعت کب سنبھالے سے سنبھلتی ہے
نہ بن آتی ہے ناصح سے نہ کچھ واعظ کی چلتی ہے
یہ کس کی ہے تمنا چٹکیاں لیتی ہے جو دل میں
یہ کس کی آرزو ہے جو کلیجہ کو مسلتی ہے
وہ دیوانہ ہے جو اس فصل میں فصدیں نہ کھلوائے
رگ ہر شاخ گل سے خون کی ندی ابلتی ہے
سحر ہوتے ہی دم نکلا غش آتے ہی اجل آئی
کہاں ہوں میں نسیم صبح پنکھا کس کو جھلتی ہے
تمتع ایک کا ہے ایک کے نقصاں سے عالم میں
کہ سایہ پھیلتا جاتا ہے جوں جوں دھوپ ڈھلتی ہے
بنا رکھی ہے غم پر زیست کی یہ ہو گیا ثابت
نہ لپکا آہ کا چھوٹے گا جب تک سانس چلتی ہے
قرار اک دم نہیں آتا ہے خون بے گنہ پی کر
کہ اب تو خود بہ خود تلوار رہ رہ کر اگلتی ہے
جہنم کی نہ آنچ آئے گی مے خواروں پہ او واعظ
شراب آلودہ ہو جو شے وہ کب آتش میں جلتی ہے
نہ دکھلانا الٰہی ایک آفت ہے شب فرقت
نہ جو کاٹے سے کٹتی ہے نہ جو ٹالے سے ٹلتی ہے
یہ اچھا شغل وحشت میں نکالا تو نے اے حیدرؔ
گریباں میں الجھنے سے طبیعت تو بہلتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |