اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
Appearance
اک آفت جاں ہے جو مداوا مرے دل کا
اچھا کوئی پھر کیوں ہو مسیحا مرے دل کا
کیوں بھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشا ہے تڑپنا مرے دل کا
بازار محبت میں کمی کرتی ہے تقدیر
بن بن کے بگڑ جاتا ہے سودا مرے دل کا
گر وہ نہ ہوئے فیصلۂ حشر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام خدایا مرے دل کا
کیا کوہ کن و قیس کو دیتے دم تقسیم
حصہ تھا غم حوصلہ فرسا مرے دل کا
گو میں نہ رہوں محفل جاناں میں مگر روز
تسلیمؔ یوں ہی ذکر رہے گا مرے دل کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |