اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
Appearance
اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
سارے جہاں کا تجھ کو آرام جاں بنایا
بوئے محبت اپنی رکھی خدا نے اس میں
سینے میں آدمی کے دل عطرداں بنایا
اپنی تو اس چمن میں نت عمر یوں ہی گزری
یاں آشیاں بنایا واں آشیاں بنایا
محنت پہ ٹک نظر کر صورت گر ازل نے
چالیس دن میں تیرا میم دہاں بنایا
ازبسکہ اس سفر میں منزل کو ہم نہ پہنچے
آوارگی نے ہم کو ریگ رواں بنایا
مغرور کیوں نہ ہووے صنعت پر اپنی صانع
کس واسطے جب اس نے یہ گلستاں بنایا
خون جگر سے میرے گل کی شبیہ کھینچی
نالے کو میرے لے کر سرو رواں بنایا
آتا ہے مصحفیؔ تو یہ کس کے زخم کھائے
تیر جفا کا کس نے تجھ کو نشاں بنایا
سو ٹکڑے ہے گریباں دامن لہو میں تر ہے
یہ رنگ تو نے ظالم اپنا کہاں بنایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |