اک رات بخت سوں میں رنداں کا سات پایا
اک رات بخت سوں میں رنداں کا سات پایا
عرفاں کے ملک دیں پر حق سوں برات پایا
من عرف نفسہ کا انجن لگا کو دیکھا
ہر چیز ذات حق بن میں بے ثبات پایا
یو نفس دوں ہوا سوں پکڑے لیا تھا میری
مرشد کی کفش اٹھائیں اس سوں نجات پایا
یو قول و فعل میرا مجھ اختیار سوں نیں
ہت پنج مات کی میں آپس کی ذات پایا
تسلیم کر اپس کوں اس کی رضا کے اوپر
محبوب کا اپس پر نت التفات پایا
جا بت کدے میں دیکھا چشم یگانگی سوں
حق بن نہیں دسیا گر عزیٰ و لات پایا
اسم و صفت کا جلوہ اسم و صفت میں دیکھا
ہر ذات کوں خدا کی میں عین ذات پایا
قطرہ ہے عین دریا دریا ہے عین قطرہ
بھی دونوں غیر ہی ہیں نادر یو بات پایا
ہر شے ہے عین ہر شے بھی شے ہے غیر ہر شے
مرشد کے لطف سوں میں کیا خوب بات پایا
مہتاب علم سلگا گل ریز معرفت کے
کر جہل کو ہوائی خوش شبرات پایا
روں روں زباں کروں تو اس کی ثنا نہ سر سی
قربیؔ کرم سوں حق کی کیا خوش نکات پایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |