اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
Appearance
اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
در پردہ کہیں کی آرزو ہے
ہے بھی تو انہیں کا دل کو ارماں
ہے بھی تو انہیں کی آرزو ہے
ہوتا نہیں ہاں سے قول پورا
اب مجھ کو نہیں کہ آرزو ہے
کھو آئے ہیں کوئے یار میں دل
اس پر بھی وہیں کی آرزو ہے
ایمان کا اب خدا نگہباں
اک دشمن دیں کی آرزو ہے
نکلے بھی تو تیری جستجو میں
یہ جان حزیں کی آرزو ہے
اندھیرا مچا ہوا ہے دل میں
کس ماہ جبیں کی آرزو ہے
کیوں حشر کا قول کر رہے ہو
مضطرؔ کو یہیں کی آرزو ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |