اگر
اگر یہ ہوتا تو کیا ہوتا اور اگر یہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا اور اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔۔۔ ظاہر ہے کہ ان خطوط پر ہم جتنا سوچیں گے، الجھاؤ پیدا ہوتے جائیں گے اور جیسا یورپ کے ایک بڑے مفکر نے کہا ہے، ’’یہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔‘‘ کے متعلق سوچ بچار کرنا بالکل لاحاصل ہے۔ یہ بات ایک عام آدمی کے نقطۂ نظر سے کہی گئی ہے اور بالکل سچ ہے کیونکہ عام آدمی کا کام اگر کے چکر میں پھنسنا نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں پھنس کر وہ اپنی حرکت، اپنی توجہ کی شدت اور اپنے عمل کی قوت کو بالکل کھو دے گا۔ ’’وہ جو کچھ کہ ہو سکتا یا ہو جاتا‘‘ پر سوچ بچار کرنا ’’دماغی سٹہ بازی‘‘ ہے۔ کیونکہ اس میں بھی آدمی اسپیکولیشن کی بھول بھلیوں میں پھنس جاتا ہے۔
عام آدمی کا ایسی باتیں سوچنا بالکل بیکار ہے، لیکن فلسفی کی بات الگ ہے۔ وہ جب نامعلوم ممکنات کا کھوج لگاتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہو جاتا ہے، اس لئے کہ وہ حال اور مستقبل دونوں سے متعلق ہے۔ عارضی اور دائمی دونوں چیزوں سے اسے واسطہ ہے۔ انسان کی متبدل اور غیر متبدل دونوں قسم کی عادات اس کے پیش نظر رہتی ہیں۔ چنانچہ اس کے دماغ میں ایسے سوالوں کا پیدا ہونا ضروری ہے کہ اگر فلاں فلاں حادثہ وقوع پذیر نہ ہوتا تو زمانے کی رفتار کیسی ہوتی۔ فلاں ارادے یا فیصلے میں اگر تھوڑی سی ترمیم ہوتی تو واقعات کا رخ کیسا ہوتا، اگر فلاں آدمی مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے یا کچھ دیر بعد مرتا تو زندگی میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی۔
’’اگر‘‘ کی بے شمار ایسی شکلیں ہو سکتی ہیں، کیونکہ اب تک جو کچھ ہوا ہے اس کو ہر رنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’اگر‘‘ کے میدان میں ایسے کئی گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر حکیم سقراط اس ماردھاڑ میں جو کہ چارسو چوبیس سال قبل از مسیح ایتھنز کے باشندوں نے مچائی تھی، قتل ہو گیا ہوتا تو افلاطون اور ارسطو کا نام کبھی سننے میں نہ آتا۔ یونانی فلسفے کا وجود تک نہ ہوتا اور وہ سبق جو یورپ کی دانش گاہوں میں دو ہزار سال سے پڑھایا جا رہا ہے، معرض وجود ہی میں نہ آتا۔۔۔ اس ’’اگر‘‘ پر اگر غور کیا جائے تو کتنی دلچسپ باتوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ بیتے ہوئے زمانے کا دو ہزار سال لمبا تھان کھول کر اس کے تمام نقش و نگار مٹا کر نئے بیل بوٹے بنانا کم دلچسپ نہیں۔۔۔ اور اگر یہ سوچا جائے کہ اگر قلو پطرہ کی ناک ایک انچ کا آٹھواں حصہ بڑی یا چھوٹی ہوتی تو کیا ہوتا۔۔۔
یہ ’’اگر‘‘ بہت مشہور ہے اور اس پر غور بھی کیا جا چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر قلو پطرہ کی ناک ایک انچ کا آٹھواں حصہ بڑی یا چھوٹی ہوتی تو عیسائیوں کی تاریخ تمدن بالکل مختلف ہوتی۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ عورتوں کی ناک کے سائز کو اتنا اہم نہ سمجھیں اور کسی خاتون کی ناک کو قوموں کی قسمت تبدیل کرنے والی نہ مانیں مگر اس بات پر پھر بھی بحث ہو سکتی ہے کہ اگر قلو پطرہ کی ناک ذرا بھر بڑی یا چھوٹی ہوتی تو اس کی خوبصورتی میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا۔ اگر اس کی خوبصورتی میں فرق آ جاتا تو وہ نہ جولیس سیزر کو اور نہ مارک انطونی کو مسحور کر سکتی،چنانچہ رومن ہسٹری بالکل مختلف ہوتی اور۔۔۔ خدا جانے اور کیا کیا کچھ نہ ہوتا اور کیا کیا کچھ ہوتا۔ آیئے ہم چند تاریخی ’’اگروں‘‘ پر سرسری نظر ڈالیں۔
اگر سابق قیصر جرمنی ولیم دوئم اور شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم ایک دوسرے سے دلی نفرت نہ رکھتے ہوتے تو سن چودہ کی بڑی لڑائی معرض وجود ہی میں نہ آتی۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ ایڈورڈ کو قیصر ولیم کی خودبینی پسند نہ تھی۔ پہلی ملاقات ہی میں ان کے دل نفرت کے جذبات سے معمور ہو گئے جو سالہا سال تک قائم رہے۔ اس دوران میں چھوٹے چھوٹے معمولی واقعات بھی ان کو مشتعل کرتے رہے، چنانچہ کاؤنٹس آف داروک نے اس قسم کے ایک معمولی واقعے کا ذکر کیا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایڈورڈ اور قیصر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے سامنے سے جنگی نامہ نگار ملٹن پرائر گزرا۔ قیصر نے پوچھا، ’’یہ مختصر سا عجیب و غریب آدمی کون ہے؟‘‘ ایڈورڈ نے جواب دیا، ’’مشہور و معروف جنگی نامہ نگار ملٹن پرائر۔‘‘ قیصر نے حقارت آمیز لہجے میں کہا، ’’اوہ۔۔۔ ملٹن پرائر، وہ جرنلسٹ۔‘‘
شہنشاہ ایڈورڈ، قیصر کی اس بدتمیزی سے کبیدہ خاطر ہو گئے اور اس کو ذلیل کرنے کی ٹھان لی۔ ’’آپ اس سے مل کر یقیناً خوش ہوں گے۔‘‘ شہنشاہ ایڈورڈ نے اس انداز میں کہا گویا انہوں نے قیصر کی حقارت آمیز گفتگو کا مقصد ہی نہیں سمجھا۔ اس سے پہلے کہ شہنشاہ ایڈورڈ کا تندمزاج بھانجا کچھ کہہ سکے، انہوں نے ملٹن پرائر کو قریب آنے کا اشارہ کر دیا۔ جب وہ پاس آ گیا تو شہنشاہ نے یوں تعارف کرایا، ’’مسٹر پرائر، قیصر نے خواہش ظاہر کی کہ میں تمہاری اس سے ملاقات کراؤں۔‘‘ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ یہ شخصی منافرت جنگ کے دیوتا کو مشتعل کرنے کا سبب بنی اور انگریزوں سے جرمنی کے حسد اور نفرت کی آگ کا ایندھن بن گئی اور سن چودہ میں جنگ عظیم شروع ہو گئی۔
اگر نیپلز میں لیڈی ہملٹن نے نلسن سے ملاقات نہ کی ہوتی اور وہ اس پر عاشق نہ ہو جاتا تو بہت ممکن ہے نیل کی جنگ کبھی وقوع پذیر نہ ہوتی۔ اٹلی کا ارادہ نلسن کی مدد کرنے کا نہ تھا۔ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے جا رہے تھے، لیکن حسین اورجادو نظر ایما یعنی لیڈی ہملٹن نے اپنے مدبر شوہر کے پردے میں زنجیر کو حرکت دی اور اس کے جہازوں کو سامان رسد فراہم کرنے اور مہم پر روانہ ہونے میں مدد دی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس خاتون نے اپنے عاشق نلسن کو بہت سی راز کی باتیں بھی معلوم کر کے بتلائیں۔
اگر ملکہ الزبتھ اسپین کے شہنشاہ فلپ سے شادی کرنے سے انکار کر دیتی اور ملکہ میری کے پروانہ موت پر دستخط نہ کرتی تو انگلستان پر آرمیڈا یعنی اسپین کا زبردست جنگی بیڑہ کبھی حملہ نہ کرتا۔ سیاست کی بساط پر ملکہ انگلستان نے شاہ فرانس اور شاہ اسپین کو ایک دوسرے کے مقابلے میں احمق بنا کر یورپ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کا جھگڑا کھڑا کر دیا۔ بلکہ میری جب قتل ہوئی تو فلپ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ میری نے اپنی وصیت میں فلپ کو تاج و تخت کا مالک قرار دیا تھا، جو اس کا سب سے زیادہ قریبی عزیز اور کیتھولک تھا۔ فلپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر انگلستان فتح ہو گیا تو یورپ میں کیتھولک مذہب کا پھر پچھلا سا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ بس اس نے بغیر سوچے سمجھے آرمیڈا کو انگلستان فتح کرنے کے لئے روانہ کر دیا، لیکن نتیجہ برعکس ہوا اور اسپین کی ساری شان و شوکت خاک میں مل گئی۔
اگر شہنشاہ میکس میلیاں ایک مغرور اور ضدی عورت سے شادی نہ کرتا تو میکسیکو خونیں انقلاب سے محفوظ رہتا اور ساتھ ہی شہنشاہ کی جان بچ جاتی۔ میکسیکو کے باشندے اس بات کے خلاف تھے کہ ان کے وطن پر کوئی غیر ملکی حکمران ہو۔ ان کی مرضی کے خلاف نپولین سوئم ان پر میکس میلیاں کی حکومت عائد کر رہا تھا، جس سے انہوں نے یکسر انکار کر دیا، میکس میلیاں نے جب دیکھا کہ معاملات دگرگوں ہو چکے ہیں تو اس نے چاہا کہ تخت سے دست بردار ہو جائے مگر اس کی ضدی اور مغرور ملکہ بیچ میں حائل ہو گئی۔ اس نے اپنے خاوند کو غیرت دلائی۔ ایسی باتیں صرف بڈھوں اور احمقوں کو زیب دیتی ہیں۔۔۔ چونتیس سال کے جوان شہنشاہ کے لئے یہ انتہائی ذلت اور بزدلی ہوگی اگر وہ تخت سے دستبردار ہو جائے۔
اس کے بعد وہ بعجلت تمام شہنشاہ فرانس کے پاس آئی، اور نپولین سوئم سے فوجی امداد کی ملتجی ہوئی، لیکن امریکہ نے نپولین کو پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا، چنانچہ اس نے فوجی امداد سے صاف انکار کر دیا۔ ادھر ملکہ امداد و اعانت کی فکر میں سرگرداں تھی۔ ادھر میکس میلیاں اور اس کی فوج صدرواریز کے ہاتھوں شکست پر شکست کھا رہی تھی۔ ملکہ کی ضد آخر رنگ لائی اور اس کے نیک دل شوہر میکس میلیاں کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔۔۔ کہتے ہیں کہ ملکہ کو پھر کبھی اپنے شوہر کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا، اور مدت تک اس پر غم کے باعث دیوانگی کی کیفیت طاری رہی۔
اگر۔۔۔ یہ بڑا دلچسپ اگر ہے۔۔۔ اگر کولمبس نے امریکہ دریافت نہ کیا ہوتا تو ظاہر ہے کسی اور نے دریافت کر لیا ہوتا کیونکہ پرانی دنیا سے یہ نئی دنیا زیادہ دور نہیں، مگر ہمیں تو صرف یہ سوچنا ہے کہ اگر کولمبس نے یہ دنیا دریافت نہ کی ہوتی تو کیا ہوتا۔۔۔ فورڈ کی موٹرکاریں نہ ہوتیں۔ لیگ آف نیشنز نہ ہوتی۔ انگریزوں کا تمباکو سے تعارف نہ ہوتا اور نہ آئرستان میں آلوؤں کی کاشت ہوتی۔۔۔ چارلی چپلن جیسا مسخرہ نہ ہوتا اور یہ فلم نہ ہوتی۔ فلموں اور آلوؤں کو چھوڑیئے۔۔۔ آپ یہ سوچئے کہ اگر راجہ دسرتھ کے رتھ کا پہیہ نہ نکلتا تو کیا ہوتا۔۔۔ ظاہر ہے کہ ہر سال دسہرے کے موقع پر جو راون جلایا جاتا ہے، نہ جلایا جاتا۔
تاریخی بیان ہے کہ جب راجہ دسرتھ کے رتھ کا پہیہ نکل گیا تو رانی کیکئی نے میخ کی جگہ اپنی انگلی داخل کر دی اور یوں رتھ کو بچا لیا۔ راجہ دسرتھ اپنی رانی کے اس ایثار سے بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے خوش ہو کر کہا، ’’مانگ مجھ سے کیا مانگتی ہے۔‘‘ رانی کیکئی نے اس وقت تو کچھ نہ مانگا، مگر جب رام چندر جی کو گدی پر بٹھایا جانے لگا تو اس نے اپنے خاوند کو اس کا وچن یاد دلایا اور کہا، ’’میری یہ خواہش ہے کہ آپ رام کو چودہ سال کے لئے جنگلوں میں بھیج دیں اور میرے لڑکے بھرت کو گدی پر بٹھا دیں، چنانچہ رام چندر جی کا بن باس ہوا اور ان کی راون سے معرکہ خیز جنگ ہوئی۔
اس طرح اگر درد پدی طعن آمیز لہجے میں دریودھن سے یہ نہ کہتی کہ آخر تم اندھے ہی کے لڑکے ہو۔ تمہیں سجھائی کیسے دے گا تو بہت ممکن ہے مہابھارت نہ لڑی جاتی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پانڈوں کے حصے میں بہت خراب زمین آئی تھی، جس کو انہوں نے بڑی محنت سے صاف کیا اور کاریگری کے ایسے نمونے پیدا کئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسا فرش بنایا تھا کہ تالاب معلوم ہو اور ایسا تالاب بنایا تھا جو فرش معلوم ہو۔ پانڈوں نے جب کوروں کو اپنے یہاں دعوت دی تو وہ صنعت کے یہ نادر نمونے دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ دریودھن تو بوکھلا سا گیا۔ ایک فرش کو اس نے یہ سمجھا کہ تالاب ہے، چنانچہ اس نے اپنا لباس اوپر اڑس لیا۔ کہتے ہیں اس موقع پر درد پدی نے یہ طعنہ زنی کی۔ ’’آخر تم اندھے ہی کے لڑکے ہو، تمہیں سجھائی کیسے دے گا۔۔۔‘‘ چنانچہ یہ طعنہ آگے چل کر مہا بھارت کا موجب ہوا۔
اگر چنگیز خان پیدا نہ ہوتا تو مغرب کی بیداری میں ایک زمانہ صرف ہوتا، چینیوں کو مقناطیسی سوئی کا استعمال ایک مدت سے آتا تھا مگر نئے یورپ سے اس ایجاد کا تعارف چنگیز خان کے حملوں کی بدولت ہوا۔ ظاہر ہے کہ اگر قطب نما جیسی اہم ایجاد کا علم صرف چین تک ہی محدود رہتا تو کولمبس اور واسکوڈے گاما اتنے لمبے سمندری سفر کبھی نہ کرتے، اگر چنگیز خان پیدا نہ ہوتا تو آج روس کی شکل ہی اور ہوتی کیونکہ وہ منگولوں کی غلامی سے بچا رہتا۔
دشمن کے بحری بیڑے کا کھوج لگانے کے سلسلے میں جنرل نلسن مالٹا سے مصر تک گیا۔ یہ ۱۷۹۸ء کا ذکر ہے۔ ۲۲ جون اور ۲۸ جون کے درمیانی عرصے میں انگریزوں کا جنگی بیڑہ فرانسیسیوں کے جنگی بیڑے کے پاس سے ہو کر گزرا مگر ان میں سے کسی کو ایک دوسرے کی موجودگی کا علم نہ ہوا۔۔۔ بحیرۂ روم کی ایک کالی رات میں دنیا کی سب سے بڑی ’’اگر‘‘ دیر تک کانپتی رہی، اگر طرفین کے کسی جہاز میں روشنی کی ہلکی سی شعاع نظر آ جاتی، کوئی آواز سنائی دے جاتی، کوئی فوجی موج میں آ کر گیت گا دیتا اور نلسن کو دشمن کے بحری بیڑے کی موجودگی کا علم ہو جاتا تو دنیا نپولین کے نام سے بالکل نا آشنا ہوتی۔ اس کا نام جنگی تذکروں میں ایک ایسے جرنیل کی حیثیت سے لکھا جاتا جو کافی اہلیتوں کا مالک ہو اور بس۔۔۔ روس پر نپولین کا ناکام حملہ نہ ہوتا اور یوں فرانس کے ایک لاکھ پچیس ہزار آدمی مارے نہ جاتے، ایک لاکھ بتیس ہزار آدمی سردی اور تھکاوٹ کی بھینٹ نہ چڑھتے اور ایک لاکھ ترانوے ہزار فرانسیسی روسیوں کے قیدی نہ بنتے۔
اگر اسٹیفن چائے کی کیتلی کی ٹونٹی پر چمچہ نہ رکھتا تو اسے بھاپ کی طاقت معلوم نہ ہوتی اور ریلوے انجن کبھی نہ بنتا۔۔۔ اگر درخت سے سیب نہ گرتا تو نیوٹن کشش ثقل کیسے دریافت کر سکتا۔۔۔ اگر مہاتما گاندھی نہ ہوتے تو آج اس ونو بھابھوے کو کون جانتا۔۔۔ اگر مارکونی نہ ہوتا تو ریڈیو نہ ہوتے۔۔۔ اگر ہٹلر نہ ہوتا تو یہ دوسری جنگ عظیم معرض وجود میں نہ آتی، اگر حضرت آدم بہشت سے نکالے نہ جاتے تو اس دنیا کے بجائے کوئی اور ہی دنیا ہوتی، اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا اور اگر خدا نہ ہوتا تو۔۔۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |