اگرچہ دل کو لے ساتھ اپنے آیا اشک مرا
Appearance
اگرچہ دل کو لے ساتھ اپنے آیا اشک مرا
نگاہ میں تری ہرگز نہ بھایا اشک مرا
میں تیرے ہجر میں جینے سے ہو گیا تھا اداس
پہ گرم جوشی سے کیا کیا منایا اشک مرا
حذر ضروری ہے اے سرو ناز اس سے تجھے
کہ آبشار مژہ کو بہایا اشک مرا
ہوا ہے کون سے خورشید رو سے گرم اتنا
کہ میرے دل کو جو ایسا جلایا اشک مرا
برنگ غنچۂ افسردہ ہو گیا تھا یہ دل
سو ویسے مردہ کو پل میں جلایا اشک مرا
ہوا وہ جب نظر انداز یار کا آگاہؔ
مجھے یہ بے اثری پر ہنسایا اشک مرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |