Jump to content

اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے

From Wikisource
اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے
by انعام اللہ خاں یقین
302731اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہےانعام اللہ خاں یقین

اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے
نرا برا نہیں یہ شغل کچھ بھلا بھی ہے

اس اشک و آہ میں سودا بگڑ نہ جائے کہیں
یہ دل کچھ آب رسیدہ ہے کچھ جلا بھی ہے

یہ آرزو ہے کہ اس بے وفا سے یہ پوچھوں
کہ میرے بے مزا رکھنے میں کچھ مزا بھی ہے

یہ کون ڈھب ہے سجن خاک میں ملانے کا
کسو کا دل کبھو پانو تلے ملا بھی ہے

یقیںؔ کا شور جنوں سن کے یار نے پوچھا
کوئی قبیلۂ مجنوں میں کیا رہا بھی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.