اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
Appearance
اگر ان کے لب پر گلا ہے کسی کا
تو بے جا بھی شکوہ بجا ہے کسی کا
حسیں حشر میں سر جھکائے ہوئے ہیں
وفا آج وعدہ ہوا ہے کسی کا
وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں
بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا
وہ خود چاہتے ہیں کوئی اب ستائے
ستانا مزا دے گیا ہے کسی کا
جو ہیں دست گستاخ اپنے سلامت
تو جھوٹا ہی وعدہ وفا ہے کسی کا
وہ کیوں اٹھ کے خلوت سے محفل میں آئیں
وہ کیا جانیں کیا مدعا ہے کسی کا
بنا لوں خدا تو بھی میرے نہ ہوں گے
بتوں میں کوئی بھی ہوا ہے کسی کا
کوئی گود میں جھم سے آ ہی گیا ہے
تصور ہمیں جب بندھا ہے کسی کا
ریاضؔ اور ہی رنگ میں مست ہیں اب
سنا ہے پیالا پیا ہے کسی کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |