ایجاد غم ہوا دل مضطر کے واسطے
ایجاد غم ہوا دل مضطر کے واسطے
پیدا جنوں ہوا ہے مرے سر کے واسطے
کرتے ہو فکر غافلو کیا گھر کے واسطے
دنیا میں سب مقیم ہیں دم بھر کے واسطے
ہر شے میں جو کہ دیکھتے ہیں جلوہ دوست کا
وہ لوگ سجدہ کرتے ہیں پتھر کے واسطے
اس بت نے ایک بات نہ مانی شب وصال
لاکھوں دیے خدا و پیمبر کے واسطے
سن کر پیام وصل میں قاصد سے جی اٹھا
ہے معجزہ ضرور پیمبر کے واسطے
مژگاں کو تیری ہم نے جگہ اپنے دل میں دی
زیبا یہ میان ہے اسی خنجر کے واسطے
لکھتا ہوں اس پری کی صفت چشم شوخ کی
تار نگاہ حور ہو مسطر کے واسطے
بالش کی جا ہے مجھ کو ترا سنگ آستاں
کافی ہے خاک در مرے بستر کے واسطے
جاتا ہوں چین کاکل عنبر فشاں کو میں
سودا خریدتا ہے مجھے سر کے واسطے
جتنے تھے ظلم سب وہ جفا کار کر چکا
باقی رہے نہ چرخ ستم گر کے واسطے
کرتا ہوں روز ہجر میں تدبیریں دوستو
کیا کیا تسلیٔ دل مضطر کے واسطے
ساقی شراب اشک ہے یاں جام چشم میں
احسان اٹھائیں کیوں مے و ساغر کے واسطے
اے سحرؔ قدرداں جو نہ ہو کوئی شعر کا
تو زندگی ہے موت سخنور کے واسطے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |