ایک مدت سے طلب گار ہوں کن کا ان کا
Appearance
ایک مدت سے طلب گار ہوں کن کا ان کا
تشنۂ حسرت دیدار ہوں کن کا ان کا
جان کو بیچ کے یہ نقد دل اب لایا ہوں
سب سے پہلے میں خریدار ہوں کن کا ان کا
امتداد اس مرے بیمار کا مت پوچھ طبیب
روز میثاق سے بیمار ہوں کن کا ان کا
مخلصی قید سے مشکل ہے مجھے تا دم مرگ
دام الفت میں گرفتار ہوں کن کا ان کا
بود و باش اپنا بتاؤں میں تمہیں کیا یارو
ساکن سایۂ دار ہوں کن کا ان کا
ہے بجا فخر کروں اپنی اگر تالا پر
کفش برداروں کا سردار ہوں کن کا ان کا
گالیاں تجھ کو جو دیتے ہیں یہ حاتمؔ ہیں کون
کچھ نہ پوچھو میں گنہ گار ہوں کن کا ان کا
تو سزا وار سزا کس کا ہوا ہے حاتمؔ
صاحب من میں گنہ گار ہوں کن کا ان کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |