Jump to content

ایک پہاڑ اور گلہری

From Wikisource
ایک پہاڑ اور گلہری (1924)
by محمد اقبال
291326ایک پہاڑ اور گلہری1924محمد اقبال

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!

کہا یہ سُن کے گلہری نے، مُنہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو مَیں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تُو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دِکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.