اے بڑھیا میں کیسا؟
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوستزخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلےآغا قیس (اپنی بیوی الماس خانم سے) بیگم! دیکھو، میں دلی چھوڑ کر کلکتہ جارہا ہوں۔ آنے جانے میں برسوں لگیں گے، اور زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں۔ خدا جانے تم لوگوں کی شکل پھر دیکھنی نصیب ہو یا نہیں۔ میں وصیت کرتا ہوں کہ تم میری پیٹھ پیچھے میری اماں جان سے نہ لڑنا اورنہ انہیں ستانا اور کپڑے لتّے یا کھانے پینے کی تکلیف نہ دینا۔ نہیں یاد رکھنا قیامت کے دن تمہارا دامن ہوگا اورمیرا ہاتھ ہوگا۔ اتنا کہہ کر قیس چپ ہوگیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔الماس خانم بھلا چلتے وقت تم کیوں بدشگونی کرتے ہو۔ خواہ مخواہ رونے بیٹھ گئے۔ تم خوشی خوشی سدھارو۔ میں تمہاری اماں جان کوآدھی بات بھی نہ کہوں گی اور ان سے بھول کر بھی نہ لڑوں گی۔ جس وقت سے تم نے مجھے محشر میں دامن گیر ہونے کی دھمکی دی ہے، اپنے دیدے گھٹنوں کی قسم ڈر کے مارے میرا کلیجہ کانپ رہا ہے۔ توبہ توبہ الہٰی توبہ! ساس میں اور سگی ماں میں فرق ہی کیا ہوتا ہے۔ میں تو ان کے پاؤں دھو دھوکر پیوں گی۔
بیوی کی باتوں سے آغا قیس کو تسکین ہو گئی، اور وہ بیچارہ کلکتہ روانہ ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد آٹھ دن تک بہو نے ساس سے کچھ چھیڑ چھاڑ نہ کی۔ مگر نویں دن الماس خانم کی والدہ شریفہ بی یاقوت بیگم آن براجیں، اور آتے ہی انہو ں نے بیٹی کو ہلسایا۔ باؤلے کو آگ دکھائی۔ اس نے گھر کو لے لکٹی آگ لگائی اور وہ چڑیل کی طرح ہاتھ دھوکر بی عزت نسا کے پیچھے پڑی۔ (عزت نساء آغا قیس کی ماں کا نام ہے)عزت نساء بادشاہ زمانی (بہو کا خطاب ہے) کل جمعہ کے دن سر دھو لوں تو اچھا ہے۔ کیونکہ میرے بال چکٹ گئے ہیں۔ آج آنولے منگا دو۔ رات کو بھگو دوں گی تو صبح تک خوب گل جائیں گے۔الماس خانم بوڑھا چونچلا جنازے کے ساتھ۔ قبر میں تو پاؤں لٹکائے بیٹھی ہو، اور اپنے تئیں سمجھتی ہو بارہ برس کی لڑکی۔ آنولے تو جوان عورتیں سر میں ڈالا کرتی ہیں، جو اپنے بالوں کو سیاہ بھونرا بنانا چاہتی ہیں۔ خاک پڑے اس ہوس کاری پر۔ کالا منہ، نیلے ہاتھ پاؤں، خدا کی لعنت، خدا کی پھٹکار شیطان کا دھکا۔ میں نے تیرے بیٹے کو عمل پڑھ پڑھ کر دلی سے اسی لئے نکالا ہے کہ تجھ سے عمر بھر کے بدلے لے لوں۔ اور تیری فریاد کو پہنچنے والا چڑیا کا بچہ تک نہ ہو۔ خدا نے اور اس کی حبیب نے چاہا تو تیرے تکلے کے سے بل نکالوں گی۔ موئی پدم شکری۔ چوٹٹی چمپا۔بی عزت نساء خون کے سے گھونٹ پی کر چپ ہو گئیں، اور بہو کی باتوں کا اصلا ًجواب نہ دیا۔ یاقوت خانم کو سمدھن سے بڑی لاگ تھی۔ بیٹی کے اس برا بھلا کہنے پر بھی ان کے کلیجے میں ٹھنڈک نہ پڑی، اور انہوں نے الماس خانم کے کان میں کہا، ’’اگر تو گھر میں چین سے رہنا چاہتی ہے تو اس بڑھیا مردار کو مار پیٹ کر گھر سے نکال باہر کر۔‘‘ الماس خانم ماں کے اس بہکائے سکھائے میں بھی آگئی اور اس نے ایک دن مغرب کے وقت بی عزت نساء کو اس بے دردی سے مارا کہ وہ بدنصیب سسکنے لگیں اور بانڈیوں کی مار سے لہو لہان ہو گئیں۔ انہیں غش آ گیا۔ اور رات کے آٹھ بجے تک وہ مردہ کی طرح پڑی رہیں۔یاقوت خانم نے الماس خانم سے کہا کہ بیٹی تیرا گھر شہر کے کنارے پر بنا ہوا ہے، اور جنگل پاس ہے۔ اپنی ساس کو گٹھری میں باندھ کر جنگل میں پھینک آ۔ رات بھر میں گیدڑ، بھیڑیے لاش کو کھاپی کر برابر کردیں گے۔ جب تیرا خاوند دو چار برس میں آئےگا تو کہہ دیں گے، تمہاری اماں مر گئیں اور فلاں قبرستان میں رکھی گئیں۔ برسات میں قبر ان کی ڈہ گئی اور نشان بھی نہیں رہا۔ صبر کرو۔ الماس خانم نے اپنی ماں کا یہ کہنا بھی قبول کیا اور بی عزت نساء کو کپڑے میں باندھ کر جنگل میں ڈال آئی۔ مگر جس کپڑے میں باندھ کر لے گئی تھی وہ لے آئی تاکہ اس کے حوالے سے پکڑا پکڑی نہ ہو۔ اس رات کو دونوں ماں بیٹیاں پاؤں پھیلاکر چین سے سوئیں۔رات کے بارہ بجے کچھ ٹھنڈک ہوئی تو بی عزت کو ہوش ہوا، اور چوٹوں کی تکلیف سے وہ زمین پر پڑے پڑے کراہنے لگیں۔ کیونکہ کلونتی بہو نے چار چور کی مارا نہیں دی تھی۔ ناگہاں انہوں نے دیکھا کہ تین شخص سفید پوش مشرق کی طرف سے آگے پیچھے آتے ہیں۔ چلتے چلتے وہ اتفاقاً بی عزت نساء کے پاس پہنچ گئے اور بڑی بی کو پڑا دیکھ کرٹھٹک گئے اور کہنے لگے ہم آپس میں اپنا فیصلہ قیامت تک نہ کرسکیں گے۔ دیکھو یہ بنی آدم اور اشرف المخلوقات ہے۔ اس بڑھیا سے پوچھو اور جو یہ حکم لگائے اسے تسلیم کرلو۔ تینوں شخصوں نے کہا، بیشک انسان کا بڑا رتبہ ہے اور یہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ ہمارے حق میں جو کچھ اس کے منہ سے نکلے، اس پر ہم سب کو یقین لانا چاہئے۔ اچھا پہلے میں ہی اپنی نسبت اس سے پوچھتا ہوں۔ اتنا کہہ کر ان تین سفید پوشوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا، اور اس نے بی عزت سے کہا، اے بڑھیا میں کیسا ہوں؟عزت نساء (کراہ کر) بیٹا مجھے کیا معلوم ہے۔ تم کون صاحب ہو۔ اپنا نام و نشان بتاؤ تو میں کہوں تم ایسے ہو۔
سائل میں ہوں جاڑے کا موسم اب بتاؤ، میں کیسا ہوں؟عزت نساء سبحان اللہ جاڑے کے کیا کہنے ہیں۔ کنوار لگتے ہی لحاف تو شکیں تیار ہونے لگتی ہیں۔ رضائیاں،، کمریاں، قبائیں، چھینٹ کی، مخمل کی بنائی جاتی ہیں۔ گرمی کے موسم کے پیاسے ٹھنڈا پانی پی پی کر اپنا کلیجہ خنک کرتے ہیں۔ جاڑے کی راتیں بڑی ہوتی ہیں۔ اس لئے کھانا خوب ہضم ہوتا ہے۔ بھوک بھی بیتابی سے لگتی ہے۔ گرم گرم چائے پیتے ہیں۔ حلوا سوہن، گاجر کا میٹھا اسی موسم کا تحفہ ہے۔ بادام، پستہ، چلغوزہ، اخروٹ انہی دنوں میں کھاتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کے لئے سقاووں کے اندر پانی گرم کیا جاتا ہے تاکہ وہ نہائیں، دھوئیں، وضو کریں اور مسجد کے متولی کو ثواب حاصل ہو۔عابد زاہد جاڑے کی لمبی لمبی راتوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ذکر، شغل دل کھول کر ہو سکتا ہے۔ سردی کے آتے ہی پنبئی پردے کمروں، دالانوں کے دروں پر باندھ دیے جاتے ہیں۔ کمروں کے اندر آتش دان اور انگیٹھیاں روشن کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے مل کر آگ تاپتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ کابلی، کشمیری سوداگروں کو ہزاروں کا فائدہ پہنچتا ہے۔ شال، دوشالہ، دُھسّے، ٹپو، بانات اور طرح طرح کے اونی کپڑے بکتے ہیں۔ گیہوں، جو، چنا، جاڑے ہی کے موسم میں بڑھتا چلتا ہے۔ صبح سے شام تک جاڑے کی دھوپ اچھی لگتی ہے۔ بیٹا کیا کہوں، بہو نے مارکر اس بندی کا بھرکس نکال دیا ہے۔ کمزوری کے مارے بولا نہیں جاتا۔ نہیں تیری سچی سچی تعریف میں اور بھی بیان کرتی۔جاڑا نہیں بڑھیا۔ تو نے اب بھی میری بہت کچھ تعریف بیان کی ہے۔ میں تیری باتیں سن کر بہت خوش ہوا۔ لو یہ ہزار روپیہ کا ایک توڑا ہے۔ اسے تم اپنے علاج میں صرف کرنا اور خدا تمہاری اس بے ادب بہو سے سمجھے جس نے ناحق تمہیں ستایا۔ یہ کہہ کر جاڑے نے ایک ہزار روپے کی تھیلی بی عزت نساء کے پہلو میں رکھ دی اور خود پیچھے سرک گیا اور اس کا دوسرا رفیق آگے بڑھا اور اس نے کہا، اے بڑھیا میں کیسا؟عزت نساء میاں مجھے کیا خبر تم کون صاحب ہو؟ اپنا کچھ اتہ پتہ بتاؤ تو میں کہوں تم ایسے ہو۔گرمی کا موسم میں ہوں گرمی کی رُت۔عزّت نساء ماشاء اللہ چشم بد دور! گرمی کی رت کی کیا تعریف ہو سکتی ہے۔ گرمی کچے اناجوں اور کچے میوؤں کو پکاتی ہے۔ گرمی جب تک جاندار کے جسم میں باقی ہے، زندہ ہے۔ نہیں مردہ ہے۔ گرمی کے موسم میں ملائی کی برف، شربت کی برف، قسم قسم کے شربت، تخم ریحاں، فالودہ، پن بھتّا۔ کیسا بھلا لگتا ہے۔ شورہ میں پانی کی صراحیاں لگائی جاتی ہیں۔ لال، لال صافیاں لپیٹی جاتی ہیں۔ کورے کورے مٹکے۔ ٹھلیاں، جھجریاں، بھبکے، کاغذی آبخورے پانی سے بھر کر رکھے جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ چھڑکاؤ کئے جاتے ہیں۔ امیر لوگ خس خانوں میں بیٹھتے ہیں، خس کی ٹٹیاں لگاتے ہیں۔ ان پر پانی چھڑکتے ہیں۔ فراشی پنکھے کھینچے جاتے ہیں۔ تہ خانوں کی قدر ہوتی ہے۔ کھیرے، ککڑیاں، تربوز گرمی کے موسم کی نایاب چیزیں ہیں۔ آب رواں کے دو پٹے، بابر لیٹ کی محرم کرتیاں، موتیا، جوہی کے کنٹھے، پھولوں کے گہنے کی بہار اسی میں آتی ہے۔ واہ گرمی کی رت! تیرے کیا کہنے ہیں۔ ایک لنگوٹی میں بھی آدمی بسر کرسکتا ہے۔ یہ کہہ کر عزت نساء چپ ہوگئیں۔ اور گرمی کو اپنی یہ صفت و ثنا بہت پسند آئی۔ اس نے بھی ایک ہزار روپے کی تھیلی بی عزت نساء کے پاس رکھ دی۔ اور وہ پیچھے ہٹی۔ اب تیسرا رفیق بی عزت نساء کے پاس آیا اور اس نے کہا، اے بڑھیا میں کیسا؟ عزت آپ یہ کہئے کہ ہیں کون؟ پھر میں آپ کو جواب دوں کہ آپ کیسے ہیں۔ برسات کا موسم میرا نام ہے برسات کا موسم۔ اب کہو میں کیسا ہوں۔
عزت نساء واہ واہ! برسات کے کیا کہنے ہیں۔ برسات نہ ہو تو دنیا خاک میں مل جائے۔ جانداروں کا تو کیا ذکر ہے۔ جڑی بوٹیاں تک برسات کی آرزو رکھتی ہیں۔ برکھا رُت میں دھان پان، آم خصوصیت سے پیدا ہوتا ہے۔ باغوں میں جھولے پڑتے ہیں۔ ملہار گائے جاتے ہیں۔ کڑاہیاں چڑھتی ہیں۔ رم جھم، رم جھم مینہ برستا ہے، جس کے دیکھے سے دل کو تفریح ہوتی ہے۔ دلّی میں پھول والوں کی سیر کی دھوم ہوتی ہے۔ قطب صاحب کے مزار اور جوگ مایاجی کے مندر پر بیش قیمت پنکھے چڑھائے جاتے ہیں۔ پکوان تلے جاتے ہیں۔ اندر سے کی گولیاں، اندر سے، سُہال، پھینیاں برسات کے پانی سے ہی تیار ہوتی ہیں۔ کویل کوکتی ہے۔ پپیہے خوش آوازی سے بولتے ہیں۔ مور جھنگارتے ہیں۔ جوار، باجرا، مونگ، ماش، مکئی اسی موسم کی پیداوار ہیں۔ جنہیں سال بھر کھا کر انسان و حیوان جیتے ہیں۔ ہزاروں قسم کے ساگ اور سیکڑوں قسم کی گھاس برسات میں پیدا ہوتی ہے، جس کے بغیر زندگی دشوار ہے۔ اگر برسات نہیں ہوتی تو کال پڑجاتا ہے۔ آدمی کو آدمی کھاتا ہے۔برسات کا موسم بڑی بی کی زبان سے اپنی اس قدر تعریف سن کر شاد ہوگیا اور اس نے بھی اپنی بغل سے ایک ہزار روپے کی تھیلی نکال کر بی عزت نساء کے پاس دکھ دی اور پھر تینوں موسم بڑی بی کو سلام کر کے چل دیے۔ بی عزت نساء روپیوں کا نام سن کر اپنی چوٹوں کو بھول گئیں اور انہوں نے اٹھ کر تھیلیوں کو ٹٹولا اور روپیوں کو ہاتھ لگنے سے ہی ا ن کا سارا ضعف دور ہوگیا۔ دو بجے (رات) کے بعد الماس خانم کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنی ماں یاقوت خانم کو جگاکر کہا، اماں تم نے مجھے بہت بری مت دی کہ میں نے اپنی ساس کو مارا اور انہیں جنگل میں جا ڈالا۔ جب صبح کے وقت پڑوسی پوچھیں گے کہ ان کی اماں کہاں گئی تو میں کیا جواب دوں گی؟ اور اگر وہ کسی آدمی کو مری مل گئیں، یا ان کی ہڈیاں پائی گئیں، تو کوتوالی کا چبوترہ ہوگا اور میری ٹنڈیاں کسی جائیں گی۔ ابھی رات پردہ پوش موجود ہے۔ مناسب ہے کہ انہیں زندہ یا مردہ کو گھر میں لے آئیں۔یہ کہہ کر الماس خانم اپنے بچھونے سے گھبرا کر اٹھی اور پچھواڑے جنگل میں پہنچی۔ دیکھا تو بڑی بی کھونٹا سی بیٹھی ہیں او رکوئی چیز ان کے پاس رکھی ہے۔ الماس خانم نے چپکے چپکے ان سے معذرت کی، اور کہا خدا کے واسطے گھر چلئے اور یہ آپ کے پاس کیا رکھا ہے؟ بی عزت نساء نے بہو کے کان میں تینوں موسموں کے آنے اور تین ہزار روپے دیے جانے کا حال بیان کیا۔ الماس خانم اس قصہ کو سن کر پھولی نہ سمائیں۔ ساس کو پیٹھ پر لاد کر اور تینوں تھیلیوں کو بغل میں مارکر گھر لائیں۔ انہیں نرم بچھونے پر لٹایا۔ گرم گرم حریرہ بناکر پلایا اور چوٹوں پر جا بجا ہلدی پیس کر اور گرم کر کے لگائی، اور صبح اٹھ کر ان کے لئے سٹورہ بنایا اور اپنی خطا معاف کرائی۔الماس خانم کی ماں رشک و حسد کا پتلہ تھیں۔ وہ بی عزت نساء کے اس طرح روپیہ لانے پر جل مریں اور سوچنے لگیں کہ کسی طرح میں بھی ان تینوں موسموں سے انعام حاصل کروں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوا۔ ایک دن انہوں نے بیٹی کو الگ لے جاکر کہا، بیٹی ماشو! (الماس خانم کا بچپن کا نام ہے) یہ تو روپیہ پیدا کرنے کا بڑا اچھا ڈھنگ ہے۔ تو جانتی ہے میں بھی مفلس کنگال ہوں۔ آج رات کو تو مجھے مارکوٹ کر جنگل میں پھینک آ۔ خدا چاہے میں تیری سا س سے دگنا مال لے کر آؤں گی۔الماس خانم نے ماں کو بہت سمجھایا، مگر وہ تو پیسہ کے لالچ میں اندھی ہو رہی تھی۔ بیٹی کے سمجھانے کا کچھ بھی خیال نہ کیا۔ اور اس سے یہی کہا کہ تو بی عزت کی طرح مجھے مارتے مارتے کچومر نکال دے، اور جنگل میں پہنچا۔ ناچار ہوکر سعادت مند بیٹی الماس خانم نے یاقوت خانم کو لنگر کے بِلاؤ کی طرح خوب ہی مار دی۔ اور اس کے ہاتھ پاؤں توڑ کر رات کو جنگل میں پھینک آئی۔ جب آدھی رات ادھر آدھی ادھر ہوئی، تو جاڑہ، گرمی، برسات کی روحانیت یاقوت کے پاس آن پہنچی۔ اور کل کی طرح سب سے پہلے جاڑے نے بڑھ کر کہا، اے بڑھیا! میں کیسا؟یاقوت خانم خدائی خوار گدھے سوار۔ پہلے تو اپنا نام و نشان بتا۔ مجھے کیا خبر تو کون بلا ہے، پھر میں جواب دوں گی۔جاڑہ میں جاڑہ کا موسم ہوں۔یاقوت خانم اے خدا تجھے غارت کرے۔ کم بخت تو بڑا منحوس ہے۔ غریب آدمی گرمی کے اندر تو ایک چتھڑے میں بھی گزار لیتے ہیں۔ مگر تیرا منہ بے روئی دار کپڑوں کے نہیں جھکسا جاتا۔ پانی میں اولے جیسی ٹھر پیدا ہوجاتی ہے۔ نہ منہ دھویا جا سکے نہ نہانے کا حوصلہ۔ لوگ وضو کرنے، نماز پڑھنے سے جی چراتے ہیں اور جو ٹھنڈے پانی سے وضو کیا جاتا ہے تو ہاتھ پاؤں پھٹتے ہیں۔ موم روغن اور پھلوا ملنے کو کہاں سے لائے۔ ہر کام سے آدمی سردی میں گھبراتے ہیں۔ عورتیں دال دھوتی ہیں، آٹا گوندھتی ہیں تو مارے سردی کے ہاتھ اکڑ جاتے ہیں۔ پانی گرم کر کے کام کریں تو دوگنا ایندھن درکار ہوتا ہے۔ ٹھنڈے پانی سے نہاتی ہیں تو نزلہ زکام ہوجاتا ہے۔ بال سکھانے کی مصیبت پڑتی ہے۔ بچوں کو بھیگے سردودھ پلا دیتی ہیں، تو ان کا جی انمنا ہوجاتا ہے۔ بخار چڑھتے ہیں، پسلی کا خلل ہوتا ہے۔ پیٹ میں ہرا ہوجاتا ہے۔ بڑے آدمی ذات الجنب میں مرتے ہیں۔ دن چھوٹے ہوتے ہیں، کوئی کام پورا نہیں ہوتا۔ دھوبی سقے چار مہینے تک کوستے ہیں کہ خدا جاڑے کا جلدی سے منہ کالا کرے۔ اس نے ہمیں ستا دیا۔ دریا کے ٹھنڈے پانی میں کپڑے دھونے کے لئے کیونکر گھسا جائے۔ ٹھنڈا پانی مشک میں کیونکر بھرا جائے۔ پھر ٹھنڈی مشک کو کس طرح اٹھاکر لے جائیں۔ سردی کی ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اگر سفر کیا جاتا ہے تو اوڑھنا بچھونا، روئی دار لے جانا پڑتا ہے جس کا لے جانا دشوار ہوتا ہے۔ روٹی توے سے اتری اور ٹھنڈی۔ ہانڈی میں، پتیلی میں دال سالن برف کی طرح جم گیا۔ کھاؤ تو معلوم ہوتا ہے، ٹھنڈی مٹی کھار ہے ہیں۔ کپڑوں میں جو ئیں پڑ جاتی ہیں اور رات دن ستاتی ہیں۔یاقوت خانم ابھی جاڑے کے بارے میں اور کچھ کہنا چاہتی تھیں جو گرمی کے موسم نے بڑھ کر کہا۔ بس بڑھیا بس! تونے میرے بھائی کی بہت ہجو کی۔ اچھا اب بتا میں کیسا ہوں؟یاقوت خانم ستیاناسی۔ میری پیزار کو بھی معلوم نہیں کہ تو کون سے کھیت کی مولی ہے۔ اپنا نام و نشان کچھ مجھے بتا تو میں کہوں تو ایسا ویسا ہے۔
گرمی میں گرمی کا موسم ہوں۔یاقوت خانم اے گرمی تجھے خدا کی پھٹکار۔ خدا تیرا ستیا ناس کرے۔ گرمی کا دکھڑا کیا روؤں۔ پسینے پر پسینے چلے آتے ہیں۔ پسینہ کی تیزی سے کپڑے میلے بھی ہوتے ہیں اور گل بھی جاتے ہیں۔ نہ باسی پانی ٹھنڈا ہو نہ تازہ۔ جب پیو گرم، حلق سے اترنا دشوار۔ دال سالن اور سب کھانے شام سے صبح اور صبح سے شام نہیں پکڑتے۔ سڑ جاتے ہیں۔ بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ چولھے کے پاس بیٹھ کر کھانا پکانا مشکل، لپٹ کے مارے تن بدن جلا جاتا ہے۔ دھواں آنکھوں میں گھسا جاتا ہے۔ گرمی کے مارے بچوں کو تو نس ہوتی ہے۔ چیچک، موتی جھارا نکلتا ہے اور اپنی ماں کے لال اس گرمی کی بدولت قبر میں جا سوتے ہیں۔تل تخیری دھوپ میں مسافر بیچارے راہ چلتے اور بیمار پڑتے ہیں۔ سرسام ہوتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں رمضان شریف آ گئے تو پھر انسان کا جینا دشوار۔ مگر اللہ کے پاک بندے روزہ ناغہ نہیں کرتے۔ اللہ کے فرض کے پیچھے اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔ روزہ کھول کر پانی زیادہ پی گئے، کلیجے میں درد اٹھا، مرگئے۔ کسی بچہ کو روزہ رکھوایا۔ اس کا دانہ پانی بند ہوا تو بچہ بلبلا کر ہاتھوں میں آگیا۔ مارے پیاس کے اس کی آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ روزہ کھول کر سنبھل گیا تو سنبھل گیا۔ نہیں عید سے پہلے محرم ہوگیا۔ مجھے گرمی کے عیب بہت یاد ہیں، مگر درد اور چپک کے مارے مجھ سے اچھی طرح بولا نہیں جاتا ہے۔ چل دور ہو میرے سامنے سے۔ گرمی اپنا سا منہ لے کر سرک گئی اور برسات نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے کہا، ذرا ٹھہرو میں بھی اس ڈائن بد زبان سے دو دو باتیں کرلوں۔ برسات اے بڑھیا میں کیسا؟یاقوت خانم اے جوانا مرگ، مونڈی کاٹے، پہلے یہ تو منہ سے پھوٹ کہ تو کون ہے؟برسات میں ہوں برسات کا موسم۔یاقوت خانم اللہ تجھ سے بچائے، برسات موئی آفت کی پڑیا ہوتی ہے۔ سردی گرمی میں آدمی پیڑ تلے، ٹٹی تلے بیٹھ کر زندگی بسر کرسکتا ہے، مگر تجھے چاہئیں بنگلے، چھتیں، ڈھیاپھوٹی تو ہی لاتی ہے۔ گاؤں اور شہر تو ہی بہاکر لے جاتی ہے۔ رعد کی کڑک تو لے کر آتی ہے۔ بجلیاں تو ہی گراتی ہے۔ سانپ بچھو، کھنکھجورے اور ہزاروں قسم کے زہر دار کیڑے تو ہی پیدا کرتی ہے۔ مچھروں سے تو کٹواتی ہے۔ پسوّوں سے تو نچواتی ہے۔ ملیریا بخار اور ہیضہ تو پھیلاتی ہے۔ مکھیاں تو ہی بھنکواتی ہے۔ سڑی گرمی برسات کی ہی کہلاتی ہے۔ تو بڑی بے رحم ہے۔ قحط تو ہی ڈالتی ہے۔ بھوکا مارتی ہے۔جب یاقوت خانم بکواس کرچکی تو تینوں موسموں نے آپس میں صلاح کی کہ اس بے حیات عورت کو ایسی سزا دینی چاہئے جو ہمیشہ قائم رہے اور لو گ اسے دیکھ کر عبرت پکڑیں۔ یہ کہہ کر جاڑا آگے بڑھا اور اس نے یاقوت خانم کی ناک جڑ سے کاٹ لی۔ پھر گرمی نے ایک کان اس کا بے نشان کردیا۔ پھر برسات نے اس کا دوسرا کان تراش لیا اور یاقوت خانم کو برابھلا کہتے چلے گئے۔ رات کے تین بجے الماس بیگم اس خیال میں ڈوبی ہوئی اپنی ماں کے پاس پہنچیں کہ چھ ہزار کی رقم وہ اپنے پیٹ سے لگائے بیٹھی ہوں گی، مگر جاکر دیکھا کہ بڑی بی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہیں۔الماس خانم نے کہا، اماں جان خیر تو ہے؟یاقوت خانم خیر کیسی کمبخت! تو مجھے گھر لے چل۔ وہاں پہنچ کر اپنی بیتی تجھے سناؤں گی۔ الماس خانم اماں جان کو چڈھی پر چڑھاکر گھر میں لے آئی اور چراغ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اماں کی ناک نہیں ہے۔ اس نے اپنے سینہ میں ایک گھونسا مارا اور کہا، ہائے اماں جان! تمہاری ناک کہاں گئی؟ یاقوت خانم نے سارا حال بیان کیا اور کہا بیٹی! یہ سمدھن کا صبر میری جان پر پڑا ہے۔ مت کر ساس برائیاں تیرے آگے بھی جائیاں۔صبح کو ہمسایہ کے بچوں نے یاقوت خانم کو نکٹی، بوچی دیکھ کر ہنسی اڑائی۔ اور سارے شہر میں تھڑی تھڑی ہوئی۔ خدا ہم فقیروں کو ایسی طمع سے بچائے۔ جس میں ناک کان کی جوکھوں ہو۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |