اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا
Appearance
اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا
مر گیا آخر کو یہ طالب ترے دیدار کا
کیا بنائے خانۂ عشاق بے بنیاد ہے
ڈھل گیا سر سے مرے سایہ تری دیوار کا
روز بہ ہوتا نظر آتا نہیں یہ زخم دل
دیکھیے کیا ہو خدا حافظ ہے اس بیمار کا
نو ملازم لعل لب کو لے گئے تنخواہ میں
بے طلب رہتا ہے یہ نوکر تری سرکار کا
دیکھ نئیں سکتا فغاںؔ شادی دل آفت طلب
یہ کہاں سے ہو گیا مالک مرے گھر بار کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |