اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو
اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو
اب اذیت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پس دیوار کہ تو
ہاتھ کیوں عشق بتاں سے نہ اٹھایا تو نے
کف افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو
وہی محفل ہے وہی لوگ وہی ہے چرچا
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکل گنہ گار کہ تو
ہم تو کہتے تھے کہ لب سے نہ لگا ساغر عشق
مئے اندوہ سے اب ہم ہوئے سرشار کہ تو
بے جگہ جی کا پھنسانا تجھے کیا تھا درکار
طعن و تشنیع کے اب ہم ہیں سزا وار کہ تو
وحشت عشق بری ہوتی ہے دیکھا ناداں
ہم چلے دشت کو اب چھوڑ کے گھر بار کہ تو
آتش عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا
اب بھلا کھینچوں ہوں میں آہ شرربار کہ تو
ہم تو کہتے تھے نہ ہم راہ کسی کے لگ چل
اب بھلا ہم ہوئے رسوا سر بازار کہ تو
غور کیجے تو یہ مشکل ہے زمیں اے جرأتؔ
دیکھیں ہم اس میں کہیں اور بھی اشعار کہ تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |