Jump to content

اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا

From Wikisource
اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303398اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیاوزیر علی صبا لکھنؤی

اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا

محو ابرو کے لئے خنجر فولاد آیا
ذبح کرنا بھی نہ تجھ کو مرے جلاد آیا

سرکشی پر جو وہ سرو ستم ایجاد آیا
پاس آرے کے گھسٹتا ہوا شمشاد آیا

چشم موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا

دم آغاز جنوں طوق گلو گیر ہوا
غل مچانے بھی نہ پائے تھی کہ حداد آیا

کٹ گئے مارے خجالت کے جوانان چمن
باڑھ پر قد جو ترا او ستم ایجاد آیا

عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق کبھی مجنوں کبھی فرہاد آیا

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

روئے غربت میں ہجوم گل صحرائی پر
چمن‌ مجمع یاران وطن یاد آیا

مژۂ یار کے نشتر کے ہوئے سودائی
خون‌ فاسد کی طرح جوش میں فصاد آیا

بن گیا خال جبین کوکب بخت یوسف
کس ترقی پہ ترا حسن خداداد آیا

عارض صاف کا کھینچا نہ گیا جب نقشہ
آئنہ لے کے ترے سامنے بہزاد آیا

بیت ہستی کے صباؔ ہو گئے معنی روشن
خواجہ آتشؔ سا زمانے میں جو استاد آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.