اے فلک چاہیئے جی بھر کے نظارہ ہم کو
Appearance
اے فلک چاہیئے جی بھر کے نظارہ ہم کو
جا کے آنا نہیں دنیا میں دوبارہ ہم کو
کبھی ایما نہ کنایہ نہ اشارہ ہم کو
کم نگاہی نے تری جان سے مارا ہم کو
ہم کسی زلف پریشاں کی طرح اے تقدیر
خوب بگڑے تھے مگر خوب سنوارا ہم کو
جب کھنچے ان سے ہوئے اور زیادہ مضطر
مرض عشق کے پرہیز نے مارا ہم کو
روز تکرار کرے کون خریداروں سے
دل کی اس گرمئ بازار نے مارا ہم کو
آپ سے اب نہ بنے گا کوئی سودا اپنا
پھیر دیجے دل بیتاب ہمارا ہم کو
بحر ہستی میں ہوئے کشتیئ طوفانی ہم
نہیں ملتا کہیں اے داغؔ کنارہ ہم کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |