اے گرد باد طرف چمن ٹک گزار کر
Appearance
اے گرد باد طرف چمن ٹک گزار کر
بلبل کے پر پڑے ہیں گلوں پر نثار کر
آئے تھے عیش کے لیے سو تو نہ یاں ملا
پھر غم کدہ کو اٹھ چلے ہم اپنے ہار کر
کیا مسکرا کے ٹالے ہے اب پھر کب آئے گا
دل بیقرار ہوتا ہے کچھ تو قرار کر
داغوں سے دل کے سینہ تو ہے رشک لالہ زار
ہاں اشک سرخ تو بھی تو اپنی بہار کر
دھجی بھی ایک چھوڑی نہ دامان و جیب کی
دست جنوں نے لوٹا مجھے تار تار کر
وہ بھی نہ آیا اور نظر آنے سے رہ گیا
دیکھا مزا نہ اور دل اب انتظار کر
بے چیز تو نہیں یہ حسنؔ اس گلی میں روز
جا جا کے بات کرتے ہر اک سے پکار کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |