باب چہارم - فتح
پختون کی بیٹی باب چہارم ۔ فتح سید تفسیر احمد
ترتیب
بلاوا
گلابوں کا شہر
فیشن شو
تعارف
مجھ سے شادی کرلو
اعلان
سیر سپاٹا
ٹرینیگ
میٹر ہارن
چترال
افغانہ
بلاوا
ہفتہ کی صُبِح بہار تھی۔ میں سمند ر کی طرف کے برآمدہ میں آرامدے کرسی پر آنکھ بند کئے لیٹا تھا اچانک زلزلہ سا آیا۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے ہاتھ پیر چلائے اور میری آنکھیں کھل گیں۔میں نے گرتے گرتے سعادیہ کو پکڑ نے کی کوشش کی اور ہم دونوں فرش پر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ سعادیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے ٹھوسے مار رہی تھی اور زور زور سے ہنس رہی تھی۔ میرے پاس کویئ چارہ نہیں تھا کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوں۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ جیہ نے برآمدے میں آکر مجھے فون دے دیا۔ "جی" "سلام۔ میں سکینہ بول رہی ہوں۔" " سلام۔ اچھا میں تو سمجھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں مدہم ستار بج رہا ہے۔" " کیا کہا آپ نے؟" لیکن فوراً سمجھ گی کہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ اور وہ اس طرح کِھل کِھلا کر ہنس پڑی جیسے ستار نے ایک راگ سننایا۔ " میں نے آپ دونوں کو ایک استقبالیہ میں بُلانے کے لے فون کیا تھا۔ میں ، آپ کی ملاقات میرے دوستوں سے کرانا چاہتی ہوں۔" میں نے کہا۔" کہاں ،کب اور کتنے بجے۔" " آج شام کو سات بجے۔ ہوٹل رٹز کارلٹن پاسیڈینا میں اُس نے ہنس کر کہا۔" " ارے صرف پاسیڈینا، میں تو تم سے ملنے کیلئے میں تو پاکستان بھی آسکتا ہوں۔" " جھوٹا، ایک دن میں بلاؤں گی، دیکھوں گی کہ آتے ہو؟۔" سکینہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
" شرط لگاو۔ تم ہار جاو گی۔"
"رسمی لباس میں آنا" سکینہ نے کہا۔ کس بات کا استقبالیہ؟ " میں نے پوچھا۔ صوبہ سرحد کے شادی کے لباس کا فیشن شو۔"" " دوستور موافق، کیا میں شلوار کرتا پہنوں؟ "سعادیہ پہن سکتی ہے۔ تم نہیں۔" سکینہ نے شرارتی لہجہ میں کہا " ہا ہا۔۔۔" تم سعادیہ سے خود بات کرلو۔ االلہ حافظ۔ "" اللہ حافظ۔" اس کی شیرین آواز نے کہا۔ میں نے فون سعادیہ کو دیا۔
﴿﴾
گلابوں کا شہر
پاسیڈینا، سیرہ سو ستتر میں شوشون قبیلہ کا ملک تھا۔ ان کے گاؤں آرریو سیکو پہاڑوں کی وادیوں کے کناروں پر پھیلے تھے۔ اسپین نے طاقت کے بل پر مقامی انڈین کو عیسائ بنا یا اور ان سے زبردستی کی مزدوری لینے لگے۔ اٹھارہ سو تیںتیس میں میکسیکو نے اسپین کو ہرا کر سان گیبریل کے مشن گھر کو بغیر مذہب کا دُنیاوی گھر بنادیا۔ اٹھارہ سو باون امریکہ نے میکسیکو کو شکست دے دی اور پاسیڈینا کیلفورنیا، یونا ئیٹڈ اسٹیٹس کا ممبر بن گیا۔ اٹھارہ سو نوے میں پیسیڈینا کی پہلی ' گلابوں کی پیریڈ میں ہوئ اور گلابوں کا ' مقابلہ' ہونا اور جلوس کا نکلنا شروع ہوا۔ ہر سال کی پہلی جنوری گلابوں کی مقابلہ ہوتا ہے اور گلابوں کا جلوس نکلتا ہے ۔ پھولوں کی پریڈ ایک جلوس ہے جس میں فلوٹس، گاڑیاں، کشتیاں، شرکاء، جانور اور دیگر چیزیں پھولوں سے سجائی جاتی ہیں یا ڈھکی جاتی ہیں۔ اکثر دوسرے عناصر ہوتے ہیں جیسے مارچنگ بینڈ اور مختلف ملبوس میں لوگ۔
مشہور کالج کیل ٹیک- کیلیفورنیا انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی بھی پاسیڈینا میں ہے۔ اس کالج کا ایک ادارہ جے پی ایل، جیٹ پروپلشن لیب ' ناسا اسپیس ایجینسی' کے ساتھ کام کرتا ہے۔ انیس سو تیس میں جیٹ پروپلشن لیب نے ایکس پلورر راکٹ بنایا۔ یہاں پر پاتھ فاینڈر پروگرام کے لئے لینڈ روور بنایا گیا تھا جو میریخ میں کامیابی سے اترا اور گاڑی کی طرح چلا۔
میں گاڑی چلارہا تھا اور سعادیہ ساتھ بیٹھی تھی۔ ہم ٹو ٹین فری وے سے لیک اسٹریٹ نول پارک ایوینو پر موڑے۔ سڑک کے دونوں طرف کجھور کے درخت ہیں اور محلوں کی دیواریں رنگ بھرے پھولوں سے سجی ہیں۔ ہوا میں چنبلی کی خو شبو پھلی ہے۔ پاسیڈینا، دولت والے امیروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ایسے امیر لوگ جن کو دولت وراثت میں ملتی ہے 'پرانی دولت' والے امیر کہلاتے ہیں، جیسے راک فیلرپرانی دولت والے امیر ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی دولت خود کمایئ ہے وہ ' نئی دو لت' والے کہلاتے ہیں جیسے مایکروسافٹ کا بل گیٹس۔ تقریباً ایک میل کے بع داس سڑک پر رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔ ماونٹ سین گیبریل کے دامن میں تئیس ایکر کے خوبصور ت باغ پر ایک عظیم الشان قعلہ کی طرح کی بلڈنگ رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔
﴿﴾
فیشن شو
ہم نے ہوٹل کے پیش دہلیز پر گاڑی روکی۔ خدمتگار نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں نے اُسکو گاڑی کی چا بی دی۔میں اور سعادیہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ پختون کا فیشن شو بیرونی باغ 'جاپانی گارڈن' میں تھا۔ راستہ میں سکینہ ملی۔ ہم نے سکینہ کو ہماری رسم کے مطابق دونوں گالوں پہ پیار کیا۔
" تم سامنے کی نشیت پر بیٹھنا ، میں افغانہ کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں ہم ایک ماڈل کم ہیں۔ فغانہ اسکی جگہ لے گی۔"
میں نے قہقہ لگا کر کہا۔" اللہ تمہارا حافظ ہو سادیہ۔
میں نے گارڈن کا رُخ کیا۔ لال دروا زہ پر پگوڈا کیطرح چھت تھی۔دروا زہ کے دونوں طرف پتھر کا ایک شیر بنگال بیٹھا ہے۔ چھوٹی وادی میں داخل ہوا۔یہ وادی صنوبر ، میپل۔ ایک درخت جس سے شکر ملتی ہے اور پھلوں کے درختوں سے بھری ہے۔میں پگوڈا میں داخل ہوا۔
شہر کے سو معزیز حضرات جھیل کیطرف منہ کئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں پہلی قطر میں بیٹھ کر اپنے برابر بیٹھے ہوئے ہم عمر لڑکے سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ مجھے اپنا نام بتاتا ہے۔ میں نام سے پہچان جاتا ہوں کہ یہ سکینہ کا چھوٹا بھائ ہے۔
جھیل کے پانی پر بنے ہوے اسٹیج پر سکینہ نظر آتی ہے۔ وہ مائک پر اعلان کرتی ہے۔
"خواتین و حضرات میں آپ کی خدمت میں پختون کے ' پارٹی لباس' پیش کرتی ہوں۔" سکینہ نے بلند آواز میں کہا۔ "ہماری پہلی ماڈل مس بیلا ہادید۔"
ایک خوبصورت اورحسین لڑکی اسٹیج پرآئی۔
بیلا ہادید ،گھٹنوں تک لمبی ریشم اور شیفان کی سفید قمیض پہنے ہیں آستینں کھلی ہیں۔ قمیض کا نچلا حصہ سیاہی ملا سفید رنگ ہے۔ گلے اور بغل کے اردگرد ریشمی کشیدہ کاری کی گی ہے۔ مِیرا، ملتی جُلتی سفید باریک ریشمی شلوار پہنے ہیں۔ ڈوپٹہ پرنٹڈ شیفان کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔ بیلا ، سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی، پھر اسٹیج کے رن وے پر چلتی ہیں۔ اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ " ہماری دوسری ماڈل مس عِفَت۔” ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
عِفَت، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہویئ ریشم کی گلابی قمیض پہنے ہیں۔ انکی ہرے رنگ کی پتلی شلوار کے پائنچوں اور سامنے کی طرف کشیدا کاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ گلابی رنگ کا ہے جس کا پَلّو ہرے رنگ کا ہے۔ عِفَت سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ واک کرتی ہے اور بیلا، کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے پھر تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ " ہماری تیسری ماڈل مِس عمان۔"
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔ " عمان ریشم اور شیفان کی فیروزی اوراعودے رنگ کی دوہری قمیض پہنے ہیں جس کے گلے اور دامن پر ہاتھ سے کشیدا کاری کی گی ہے۔ شلوارکریپ سِلک ٹایئ اینڈ ڈائ۔ ڈوپٹہ شیفان ڈائ اینڈ ڈائ
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ واک کرتی ہے اور عِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے ایک دفعہ اور تالیاں بجائیں۔
سکینہ نے پکارا۔ "ہماری چوتھی ماڈل مس آمینہ۔"
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
آمینہ کھلے آستینوں کی گھٹنوں تک ریشمی شیفان کی لمبی نیلی قمیض پہنے ہیں۔ گلے اور بغل کے اردگرد ریشم میںکشیدہ کاری کی گی ہے۔ ملتی جُلتی نیلی باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں ۔باریک ڈوپٹہ پرنٹڈ ریشمی شیفان ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے۔" آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ " ہماری مہمان ماڈل مس افغانہ۔
افغانہ اسٹیج پر آئ۔
میرے قریب بیٹھے ہوئے شان نے کہا۔" سبحان االلہ۔ یہ تو سب سے پیاری لڑکی ہے۔ جیسے چاند نکل آیا۔"
میں نے کہا ۔" اسٹیج پر سب سے پیاری تو 'پیش کنندہ' ہے۔"
شان کو میرا پیش کنندہ کی تعریف کرنا اچھا نہیں لگا۔ " "جناب، وہ میری بہن ہے" میں نے کہا۔" خوبصورتی کو سراہانا کوئ برائ بات تو نہیں۔ تم نے میری بہن کو بھی تو پیاری لڑکی کہا۔"
" افغانہ تمہاری بہن ہے۔" شان نے حیرت سے کہا اور پھر چپ ہوگیا۔
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ، ریشم، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہوی کالی قمیض پہنے ہیں۔ کالی رنگ کی پتلی شلوارکے پائنچوں پر ریشم کی کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ بھی کالے رنگ کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔"
افغانہ سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے خوب تالیاں بجایئں۔
خواتین و حضرات میں اب ہم پندرہ منٹ کا وقفہ لیں گے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں پختون کے فارمل ' یا شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرئیں گے۔"
اس وقفہ میں کچھ ویٹرس تھالوں میں چپلی کباب اور نان اور دوسرے روح افزا کا شربت لےکر گھوم رہے تھے۔ کچھ تھالوں میں گلاب جامن، جلیبی اور قلاقند تھے۔
میں نے ایک رکابی میں نان رکھا اور اس پر چپلی کباب پھر کرسی پر بیٹھ کر مزے سے کھایا۔
وقفہ کے دوران سعادیہ میرے پاس آئ۔ میں نے شان سے اسکا تعارف کرایا۔
" شان سے ملو ۔اس کا کہنا ہے کہ تم اسٹیج پر سب سے پیاری لڑکی ہو۔"
شان کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ میں نے کہا تم دونوں باتیں کرو میں میٹھا کھانے جاتا ہوں۔
﴿﴾
تعارف
سکینہ نے کہا۔ " اُپ اور ساد اپنی گاڑی میں ہماری گاڑی کا پیچھا کریں۔ ہماری رہایش یہاں سے صرف پانچ منٹ ہے " ۔
کچھ منٹ بعد ہم سان مارینو کے علاقہ میں ایک حویلی میں داخل ہو رہے تھے۔ سکینہ نے مین گیٹ پر بٹن دبایا اور انٹرکام پر گارڈ سے بات کی۔ دروازہ کھلا اور ہماری دونوں کاریں حویلی میں داخل ہو گئیں۔ مین گیٹ خود بہ خود بند ہو گیا۔ ہم نے سکینہ کی کار کا پورچ تک پیچھا کیا اور وہاں گاڑی روک دی۔ گاڑی سے نکل کر ہم مکان میں داخل ہوئے۔ اسٹیڈی سے گزر کر ہم ایک راہداری میں آے اور بائیں ہاتھ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔کمرے میں میری عمر کے سات لوگ میز کے دونوں طرف بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر سب خاموش ہوگے۔ سکینہ میز کے شروع میں بیٹھی اور مجھے اپنے سیدھے ہاتھ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ادر سعادیہ کو الٹے ہاتھ پر بیٹھنے کو کہا۔
" ہم ایک نیا پروگرام شروع کررہے ہیں۔" میں نے آپ سب کو اس پروگرام کے لے چنا ہے۔ سکینہ نے یہ کہہ کر سعادیہ کی طرف سے لوگوں کا تعارف شروع کیا۔
شان کو تو آپ سب پہچانتے ہیں۔ یہ جب تک امریکہ میں ہے افغانہ اسکے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیے گی۔ اور وہ دونوں ایک سال امریکہ میں ہم سب کے
شان فیلڈ میں کام کرتا ہے۔ شان ان لڑکیوں کی مدد کرتا ہے جو سوات میں شوہر اور خاندان کے ظلم کا شکار ہیں۔ کام بہت خطرناک ہے اس لے شان کا کام خفیہ ہے۔
یہ انور ہں۔ انور بوسٹن میں رہتے ہیں اور یہ نیٹ ورک انجینر ہیں۔ ان کی ہی مدد سے میں آپ لوگوں سے باتیں کرتی ہوں۔ اِرم نیویارک سے ہیں۔ انکی تعلیم انفارمیشن ٹیکنا لوجی میں ہے۔ ارم ویب ماسٹر ہیں۔ نسیمہ میڈیکل اسٹوڈینٹ ہی ںاور لاس انجیلس میں ہمارے پروگرام کے لئے فنڈ حاصل کرتی ہیں۔ سونیہ شکاگو سے ہیں۔ یہ قانون کی طالبہ ہیں اور یہ ' تبادلہ خیال کی نگراں ہوگی۔ اکرم برکلے یونیورسٹی میں صوبہ سرحد کی تاریخ پر' پی ایچ ڈی' کررہے ہیں۔ جمیل کولمبیا یونیورسٹی کے ٹیچر ٹرینیگ کالج کے اسٹودنٹ ہیں۔ نیدو صوبہ سرحد کی اسمبلی کی ممبر ہیں۔
ہم سب احباب پختون ہیں۔
سکینہ نے مائک میری طرف بڑھایا۔ میں نے میرے سامعین کی طرف دیکھا تمام جوان، قابل اور پڑھے لکھے احباب۔ان کو کیسے بتایا جائے کہ میرا طریقہ بہتر ہے اور اسکا نتیجہ کامیابی ہوگا؟۔ میں کیوں نا ان ہی سے کہلوادوں کہ یہ طریقہ مناسب ہے۔
میں نے سوال کیا۔ " تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟
طالب علم کو ایک مخصوص تربیت کے لئے تیار کرنا۔ " جمیل نے سرسری طور سے کہا۔
انور، ارم اور نسیمہ نے جمیل سے اتفاق کیا۔
اکرم نے کہا۔ " یہ صرف ایک تعریف ہے۔ طالب علم اس لیئے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاح کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے" ۔
سونیہ نے کہا۔ " تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا ہے۔"
نیدو نے کہا ۔" تعلیم برین واشنگ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ تاکہ لوگوں کے عقائد بدلے جایئں۔
میں نے کہا۔ " آپ لوگ کی تعریف صحیح ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے کے فائدے اور نقصان بتاتی ہیں۔ خاصیت نہیں۔ جب ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں عقل و دماغ پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟
شان بولا۔" ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے۔"
سعادیہ بولی۔" اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں۔"
جمیل نے قہقہ لگا کر کہا۔" خصوص تربیت ، سوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ کے برابر ہے۔
سونیہ نے قہقہ لگا کر کہا۔"علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا برابر سوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ۔
اکرم نے قہقہ لگا کر کہا۔" ماضی کو جاننے اور حال کی اصلاع کرنے اور مستقبل کی پہچان کرنے تو سوچ میں اصا فہ اور خیالات کا تجزیہ کے برابر ہیں۔
نیدو نے قہقہ لگا کر کہا۔ سوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ تو برین واشنگ، عقاید بدلنا کے برابر ہے۔
میں نے کہا۔ " دوسرے الفاظ میں یہ تعریف علم سے ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں، تمام دوسری تعریفوں کا مجموعہ ہے۔"
" ہمارا خیال ہے کہ اگر ہمارے ویب سائٹ ان تمام تعریفوں کا مجموعہ ہو تو ہم بہت جلد ' غیر اسلامی اور نقصان دہ عقاید ' کو موجودہ دور کے ' انسانیت سے مطالق عقایئد' میں تبدیل کرسکتے ہیں۔" سکینہ نے کہا۔
"ہمارا پہلا مقصد ان لڑکیوں کو علم کے وہ اوزار دینا ہے جو زبان، آداب اور تاریخی کہلاتے ہیں۔" سکینہ نے اپنے خیال کو واضع کیا۔
انور نے کہا۔" زبان سے آپ کا مطلب ۔۔۔ ہم چھوٹے تھے۔ اماں مارتی تھیں ۔ہم روتے تھے یا ذیادتی کے خلاف جہاد
انور کی بات پر سب ہنس پڑے۔
" ملک میں اردو بولی جاتی ہے۔ دفتروں اور عدالتوں میں انگریزی لکھی جاتی ہے۔ پختونستان میں پشتو بولی جاتی ہے۔ اب دنیا میں اسی بھی کروڑں پاکستاں کی لڑکیاں ہیں جو اردو بولتی ہیں لیکن پڑ ھ نہیں سکھتیں۔ وہ رومن اردو ایٹرنیٹ میں استمال کرتی ہیں" سکینہ نے جواب دیا۔
ہم پختون کی لڑکیوں کو آسانی والا اردو اور پشتوکا اخبار پڑھنا سیکھانا چاھتے ہیں۔ ہم انکو اردو کا رومن اسکریپٹ میں لکھنا سیکھا نا چاہتے ہیں۔ ہم انکو انگریزی کے وہ الفاظ سیکھا نا چاھتے ہیں جو ملک میں روز مرہ اخبار، ریڈ یو اور ٹیلیویزن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ان کے علم کو حاصل کرنے کی وجہ ہونگے۔یہ چھ سال کا نصاب ہے۔اس کو جمیل خصوص تربیت کہتے ہیں ۔سکینہ نے زبان کی اہمیت بیان کی۔
" اور آداب!" سوینہ نے پوچھا۔
" ہاں آداب۔" سکینہ نے مسکرا کر کہا۔ جس کو میں اچھی دھلائ کہتی ہوں دو الفاظ میں برین واشینگ۔ پختون والی کے کچھ آداب موجودہ زمانے میں معاشرہ کی بھلائ کے بجاے برائی کا سبب ہیں۔ اسلام کے کچھ آداب میں موجودہ زمانے سے اختلاف ہے۔ ہمیں ان لڑکیوں کو 'اجتہاح' سیکھانا ہے۔ ہم ان کا 'بدل' سکھائیں گے۔ ان کو ملک کے مطالق اچھی باتیں بتائیں گے۔ اور ملک کی تاریخ کی اچھی مثالوں سے روشناس کریں گے ۔” سکینہ نے کہا۔
" تاریخ! " نسیمہ نے پوچھا۔
اکرم نے بلکل صحیح کہا کہ ماضی کو جانے بغیر نہ تو حال کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقبل کی پہچان۔ ہم ان کو آسان لفظوں میں سکھا نا چاہتے ہیں کے وہ کون تھے اور ا ب وہ کیا ہیں۔ ارم نے سوال کیا۔ " ہم کسطرح سے خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے؟"
سیکینہ نے کہا۔ ایک۔ہم میں سے جو بھی کسی خانذادی اور ملک ذادی کو جانتا ہے وہ اسکو ممبر بنانے کی کوشش کرے گا۔ دو۔ ویب سا ئیٹ پر تبادلہ خیال اور نظم و نثر کے دو سیکشن جوا ن خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کی کشش کے لئے ہیں۔ اس کو بھی استمعال کیا جاسکتا ہے۔ تین۔ جب ایک خاندان میں ایک خان ذادی اس کام کے لئے تیار ہو گی تو وہ ا پنے خاندان میں اور دوسری لڑکیوں کو بھی راضی کرسکتی ہے۔ چار۔ صوبہ سرحدمیں بارہ مشہور قبیلے ہیں۔ اور تقریاً اتنی ہی اُنکی شاخیں ہیں۔
" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اس پروگرم میں کیوں شامل ہوں گی؟ "
نیدو بولی۔" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود چاہتی ہیں۔ وہ اس مصلہ سے بھی واقف ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ اگر پختوں کی عورت کو زمانے کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو تمام پختون کی عورتوں کو اس میں حصہ لینا ہوگا۔"
نسیمہ نے سوال کیا۔ " کیا اس پروگرام میں حصہ لینا خان ذدایوں اورملک ذادیوں کے لئے خطرناک ہے۔"
" نہیں۔ کیونکہ ظاہری طور پر فوراً کوئ تبدیلی نہیں ہوگی جو کہ سرپرستوں کو خبردار کرے۔ خان ذادیاں اور ملک ذادیاں ان بچیوں کو اب بھی اپنی بہنوں کیطرح رکھتی ہیں۔" سکینہ بولی۔
جمیل نے مسکرا کر کہا۔ " یہ نہ صرف ایک عمدہ بلکہ نیک نیت کام ہے۔میں تیار ہوں۔
ارم، نسیمہ اور سونیہ نے اپنے سر اثابت سے ہلائے۔
کسی بھی کام کو کرنے کے روپیہ پیسہ کی ضررورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے فنڈ ایڈورٹائزمینٹ سے حاصل کریں گے۔ویب سایٹ پر این جی او اور ہمارے مقصد سے ملتی جلتی دوسری آرگینایئزیشن کی اڈورٹائزمینٹ کی جاسکتی ہے۔
ہم آج مقاصد پر اتفاق کرتے ہیں۔ سادیہ اور شان مستقبل قریب میں تمام متفقہ تجاویز پر مل کر کام کریں گے۔ اس کے بعد شان ان کو عمل میں لانے کے لیئے کے لیے پاکستان واپس جائیں گے۔
سکینہ نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔
﴿﴾
مجھ سے شادی کر لو
ایک سال گزر گیا اور چان کے پاکیستان جانے کا وقت آگیا۔۔۔۔۔
سمندر کا پانی واپس جا چکا تھا اور گیلی ریت پر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ سورج نے افق پر نارنجی کا رنگ اختیارکرلیا تھا۔ سعادیہ نے ایک سفید لمبا ڈریس پہنا ہوا تھا۔ اس کے لمبے کھلے بال ہوا سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ اُسے سمندر سے بہت محبت تھی۔ اس کو یہ معلوم تھا اُس جگہ جہاں سمندر کا کھارا پانی ریت سے ملتا ہے دنیا کے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بھیا نے کتنی دفعہ کہا تھا، سعادیہ اگر تم اپنے ذہن کو خاموش کرلو تو تم ہر چیز کی آواز کو سن سکتی ہو۔
شان اور وہ آج یہا ں کیوں کھانا کھایئں گے؟ " وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر دل نے کہا۔" انتظار کرو۔" حالانکہ اسکو اندازہ تھا کہ شان کا سوال کیا ہوگا؟
یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بیورلی ڈرایؤ پر رُک کر ایک افغانی رسٹورانٹ سے پِکنِک کی باسکٹ بنوالی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور کھانا شروع کیا۔ آلو بھرے سموسے، پاپڑ، کباب کی پلیٹ جس میں سیخ کباب، تنگری کباب، چکن تکہ اور تندوری چکن تھا، گارلک نان اور بلو شاہی۔ کھا نا بڑا مزے دار تھا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور چائے پی۔
سعادیہ سوچ میں غرق تھی کہ شان مجھے یہاں کیوں لایا ہے۔ اور شان اس سوچ میں تھا کہ سعادیہ میرے سوال کا کیا جواب دے گی؟ سوچ میں گم دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا۔
“شان“ “سعادیہ“ دونوں نے ایک دوسرے کا نام ایک ساتھ لیا۔
شان نے کہا۔" خواتیں پہلے۔" سعادیہ نے کہا " جناب پہلے آپ۔"
شان نے سعادیہ کو دونوں ہاتھ تھام کر اس کو کھڑا کیا۔سعادیہ کا چہرہ سمندر کیطرف تھا۔سورج آدھا غروب ہوچکا تھا اور سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سعادیہ کادل، ریل کے اِنجن کیطرح دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ دل دھیرے چلے مگر دل نے اور ذیادہ ڈھڑکنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی پوری توجہ دل سے ہٹا کر شان کیطرف کی۔
شان نے اپنا سیدھا گھٹنا ریت میں رکھ دیا اور سعادیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کہا۔ " تم سمندر کی جل پری ہو، میں پہاڑوں کا باغی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس ساحل سمندر سے محبت کرتی ہو۔ اس لیئے میں یہ سوال تم سے کرنے یہاں لایا ہوں۔ میری محبت تمہارے لئے اس سمندر کی طرح گہری ہے اور میری محبت اس سمندرکی طرح وسیع ہے۔ میں تم سے جدا نہیں رہ سکتا۔ میں تمہارا ہاتھ ہمشہ کی لئے چاہتا ہوں۔ سعادیہ تم اور میں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہوجائیں۔ مجھ سے شادی کر لو۔
سعادیہ نے تو صرف یہ الفاظ سننے ۔" سمندر، جل پری، باغی، ساحل، محبت، جدا نہیں، ہاتھ، شادی۔" اور اس نے چلا کر کہا۔
" ہاں، میں، تم سے شادی کروں گی۔میں تمہاری بن جاوں گی۔تم میرے ہو جاوگے۔” سعادیہ کا دل اب نارمل اسپیڈ سے چل رہا تھا۔
شان نے کھڑے ہو کر سعادیہ کو گلے سے لگا کر اس کے لبوں پر پیار کیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیار کرنے لگے۔
﴿﴾
اعلان
میں اگست میں گریجویٹ ہوگیا۔اباجان اور اماجان سے دنیا دیکھنے کے بارے میں کافی عرصہ سے بات چیت کررہا تھا۔ پارٹ ٹایئم نوکری کی تنخواہ بھی اسی لئے جمع کررہا تھا۔ اباجان اور اماجان نے کہا تھا کہ وہ بھی اس میں مدد کریں گے۔ سعادیہ کو پتہ تھا کہ میں نے کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔میری سعادیہ ہمشہ چاہتی تھی کہ وہ بھی سب کچھ کرے جو میں کروں۔اِن مقاصد میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔مشکل والے گولز کی فہرست میں ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اور کسی کی محبت میں گرفتار ہوجاناتھا۔آسان مقاصد میں ساری دنیا کا سفر کرنا،
پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دوہنا، اور گلایئڈر میں اڑنا۔ میں نے اب تک زندگی کے چوتھائ مقاصد مکمل کرلئے ہیں۔
جب میں نے اعلان کیا کہ میں چلا۔کوئ بھی شخص میرے اس فیصلہ خوش نہیں تھا۔ اباجان اور اماجان کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن ان کے خیال میں یہ وقت سفر کے لے صحیح نہیں تھا۔ سعادیہ کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن وہ مجھے اپنی ساتھ پختونستان لئے جانا چاہتی تھی۔ سکینہ اُداس تھی۔ اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں اسکے گروپ کا حصہ بن جاؤں گا اور ہم دونوں کا مستقبل ساتھ ہوگا۔ میں سب کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ یہ صرف چار سال کی بات ہے۔ زندگی بھر نہیں۔ میں پچیس سال کا صرف ایک دفعہ ہوں گا۔ میں اپنے گول مکمل کرنا چاھتا ہوں اس کے بعد میں آپ لوگوں کو سوات میں جوائین کرلوں گا۔
﴿﴾
میٹر ہارن پرچڑھنے کا کورس کا دورنیہ چار ہفتوں کا ہے اور اس کی قیمت پندرہ سو پچاس ڈالر ہے۔ کولوراڈو فرنٹ رینج میں چٹان اور الپائن مقاصد کا بہترین تربیتی میدان ہے جو آپ کو دی میٹر ہورن پر چڑھنے کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میں کولوراڈو ماونٹینٹ کے آفس پہنچا۔ کاونٹر پر ایک حسین لڑکی کھڑی تھی۔اس کے گال سرخ سیب کی طرح تھے۔
"ہیلو۔" میں نے اسکے نیم ٹیگ پر نگاہ دوڑایئ۔"جیسمین " " ہائ۔" میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟ " گال سرخ سیب نے کہا۔ میں نے دل میں کہا میرے ساتھ ڈنر پر چلو آج شام۔ مگر زبان نے کہا۔ “میں جیمس انڈرسن سے ملنا چاھتا ہوں۔" اس نے حیرت سے مجھ کو دیکھا۔ "کیا آپ کے پاس اپائنٹ منٹ ہے؟" " نہیں۔” میں نے کھسیا کے کہا۔ " کیا میں آپ سے پوچھتی سکتی ہوں کے آپ کو مسٹر جیمس انڈرسن سے کیا کام ہے؟" میں ماونٹ ایورسٹ کو چڑھنا چاھتا ہوں۔ اس سے پہلے میں سویزر لینڈ میں الپس پر چڑھنا چاھتا ہوں۔ اور اس سے پہلے میں ایروبیک اور جسمانی ٹرنینگ چاہتا ہوں۔"
وہ زور سے ہنسی اور اسکے لب گلاب کی پنکڑی کیطرح علحیدہ ہوگے۔” میں یہاں چھ ماہ سے کام کررہی ہوں مگر میں نے جیمس انڈرسن کو صر ف ایک بار دیکھا ہے۔ ان کے کلائینٹ تو پہلے سے ہی کامیاب کلائبمر ہوتے ہیں۔ وہ صرف مشورہ کے لے آتے ہیں۔"
" ویسے تو ہم سب سرٹیفایئڈ انسٹرکٹر ہیں۔" " تب تو میں جیسمین سے ٹرنینگ لوں گا۔” وہ ہنسی۔ " تم کہاں پر ٹہرے ہو؟" " " فی الحال تو کہیں نہیں۔ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں۔” میرا اپارٹمیٹ دو کمرے کا ہے اور میر ے اکیلے کے لیے منہگا ہے۔ چاہو تو کرایہ کا آدھا آدھا حصہ کرلیں۔" " تم تو فرشتہ ہو !" میں نے ہنس کر کہا۔ "میں آدھ گھنٹے میں یہاں سے فارغ ہوں گی۔ تب میں تم کو اپنی گاڑی میں لے چلوں گی۔”
﴿﴾
سیر سپاٹا
پیارے بھیا۔
میں خیریت سے سوات پہنچ گی ہوں۔ شان اور میں لاس انجلس سے پندرہ جولایئ کو آٹھ بجے نکلے۔ لاس انجلیس سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ لندن کا وقت آٹھ گھنٹے آگے ہے۔اسلئے لند ن میں بارہ بجے رات کو پہنچے۔ ہم نے لندن میں دو دن قیام کیا اور شہر کی مشہور جگاہیں دیکھیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ددنوں دن موسم خوشگوار تھا۔ ورنہ اس مہینہ میں عموماً بارش، اور حبس ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اس لئے ہم نے نارمن ٹوورس کو گھومنے کے لے بلایا۔ ٹور سات گھنٹے کا تھا۔ ہم نے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ایبی، بِگ بین، ہاوس آف پارلیمینٹ، پیکاڈلی سرکس، ٹرافالگر اسکوائر، نمبر ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ اور کنسنگٹن پیلس کی سیر کی۔
دوسر ے دن ہم نے لندن انڈر گراونڈ سب وے لیکر ناٹینگ ہم ہلز گے۔ اس علاقے میں بہت پاکستانیوں اور انڈین ہیں۔ ہم بازاروں میں گھومے۔ ٹھیلے والوں سے دہی بڑے، چاٹ خرید کر کھایئ او ر گول گپوں کا پانی پیا۔ اسکے بعد قلفی کھائ۔ شام میں ہم نے افغان کچن میں چکن پلاؤ، کباب اور نان کھائے۔ یہ چیزوں کو کھانے میں بہت مزا آیا اور بھیا میں نے شان سے مرچوں کی بھی شکایت نہیں کی ساری رات پیٹ سے آوازیں آتی رہی نا اور پیٹ میں درد بھی ہوا۔
لندن سے دوبیئ ہوتے ہوئے ہم کراچی اترے۔کراچی لاس انجلس کی طرح ایک بڑا شہر ہے۔ مگر گرمی اور حبس نے میرا بُرا حال کردیا۔ اور ہم نے پشاور کی ایر کیڈیشن ٹرین کراچی کے سنڑل اسٹیشن پکڑی۔ پشاور میں سکینہ اور نیدو لینے آیئں۔
میں اباجان اور اماجان سے آپ کے بارے میں ہر دوسرے دن سنتی ہوں مگر بھیا میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ دن میں تو میں بہادر بنتی ہوں لیکن شام سے آپ کی یاد آتی ہے۔ اور میں تکیہ میں منہ چھپا کر روتی ہوں۔ آپ مجھ سے ملنے کے لیے کب آئیں گے؟
آپکی ننھی۔ سعادیہ
﴿﴾
ٹرینینگ
" چلو، اُٹھو۔" " کیا ہے؟ سونے دو۔" " فِٹ نیس سینٹر جانا ہے۔" " چلی جاؤ۔" " اب اُٹھ بھی جاؤ۔ مجھ سات بجے دو سرے کلائیٹ کو ٹرین کرنا ہے۔"
" اس ہفتہ کا اسکیجول۔ ویٹس۔ ایروبِکس۔ ایروبِکس ۔ریسٹ۔ ویٹس اور ایروبِکس۔ رن یا جاگینگ (آہستہ بھاگنا)۔ لمبے ایروبکس۔"
" میں نے پہاڑ پر چڑھنا سیکھنا ہے۔ویٹ لفٹر نہیں بننا۔"
" تم پہاڑ پر بھی چڑھنا سیکو گے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہو۔
پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ویٹس، ایروبِکس اور صحیح طریقے سے سانس لینا سیکھنا بہت ضروری ہے
ھیڈ پریس، لیٹ ریز، اسٹیندینگ رو، بیک ارچ، ریورس فلایئ، لیٹ پُل ڈاون، سیٹیڈ رو، بیک ارچ اور اَرم کرل۔ ہر اکسرسایئس کا ایک سیٹ پہلے تین ہفتہ۔ اس کے بعد دو سیٹ۔
ایروبِکس کے لے تیس منٹ تک چلو یا بھاگو۔ اور اس کو بڑھا کر ایک گھنٹہ تک لے جاؤ۔ اور یہاں تک کہ تم ایک گھنٹے تک تیس پاونڈ کا وزن لیکر چل سکو۔
آرام کے دن بہت پانی پئیو۔ کچھ اسٹریچنگ کرو اور مالش کرواؤ۔"
" تم نے کل یہ سب کچھ کیوں بتایا۔"
" اگر سب بتادیتی تو تم رجسٹر نہیں کرتے اور دُم دبا کر بھاگتے اور مجھے اتنا اچھا روم میٹ کیوں ملتا۔ "
"چلو میں تم سے جیم تک دوڑ لگتی ہوں۔ اگر میں جیتی تو تم کو میرے لئے ناشتہ خریدنا ہوگا۔"
﴿﴾
میٹر ہارن
زرمٹ سویزرلینڈ کا شمار دنیا کے مشہور پہاڑی گاوں میں ہوتا ہے۔ زرمٹ چار طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک وادی میں واقع ہے۔ جسے ہی آپ لال سویز ٹرین سے اترتے ہیں۔ زرمٹ میں کار کے بجائے بغیر پییوں کی گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑکیں پتھر کی ہیں۔زرمٹ ٢٩ پہاڑوں میں تیراہزار فٹ سے اونچے پہاڑوں کا گھر ہے۔ یورپ کی دس میں سے نو بلند چوٹیاں زرمٹ کے اردگرد ہیں۔٩ اسنو ا کی لفٹ اور ان میں سے ایک لفٹ بارہ ہزار آٹھ سو تیئس فٹ کی بلندی تک جاتی ہے۔ ایک ہفتہ سے اس اونچائ اور آب و ہوا سے جسم اور ذہن کو عادی کرنے کیے لیئے ہم زرمٹ میں سے تھے اور پہلے تین دن ہرروز چا ر گھنٹے چہل قدمی کی۔
چڑھائی کا پہلا دن۔ کیوںکہ میرا ایک سال سے کم کا ماونٹین پر چڑہنے کا تجربہ تھا۔ لیڈر نے ہارن لیریج راؤٹ چنا اس راستہ پر مشکل حصوں میں مستقیل رسّیاں موجود ہیں۔ ہم گروپ سے زرمٹ میں ملے اور فلو الپ ہٹ تک پیدل چلے۔ فلو الپ سے اونچایئ کے پہلے ماونٹین ہٹ تک کیبل کار میں سفر کیا۔ چڑھنے کے لے پہلا بیس اسٹیشن آٹھ ہزار ساتھ سو ننوے فٹ پر رِمپیش ھارن ہے۔ رِمپیش ہارن کی چوٹی تیرا ہزار سات سو تیہتر فٹ اونچی ہے۔ جیسمین نے کہا کے اس ہٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔اور واقعی وہ صحیح تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔
دوسرا دن۔ رِمپیش ہارن ۔سورج نکلنے سے پہلے ہم سب اپنے چڑھایئ کے گیئر پہن چکے تھے۔ ہم نے گلیشیر پر چڑھنا شروع کیا۔گلیشیر کے بعد بغیر برف والا حصہ تہہ کیا۔ یہاں سے اوپر دیکھو تو میڑہارن بڑا خوبصورت نظر آتا ہے۔ اور ماونٹ روزا ماسیف، زرمٹ کا گاوں اور ساسفی بھی دِکھتا ہے۔ شام کو ہم زرمٹ واپس آگئے۔
تیسرا دن۔ رِفّل ہارن کی اونچایئ نو ہزار چھ سو فٹ ہے ۔یہ اگرچہ زیادہ بلندی پر نہیں ہے لیکن یہاں ہم اپنے اپ کو میٹر ہارن کی چڑھائ کی لیے تیاری کرتے ہیں۔اس چھوٹی پہاڑی پر ہم مختلف چڑھا یؤں کی مشق کرتے ہیں۔میڑہارن یہاں سے اور بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔
چوتھا دن۔ ہارنلی ہٹ۔ ہم کیبل کار کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں اور پھر کیبل ا سٹیشن سے دو گھنٹے چلنے کے بعد ہارنلی ہٹ پہنچتے ہیں۔ یہ دس ہزار چھ سو تیرانوے فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہٹ دو بلڈنگ ہیں، ایک لال اور دوسری سفید۔ لال بلڈنگ کے سامنے سویزر فلیگ لہرارہا ہے۔ سہ پہر میں ہم ہارنلی پرمشق کرتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صبح ہم اندھرے میں یہاں سے گزریں گے۔ہم کھانے کی درمیان میٹرہارن پر چڑھنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیں اور صبح جلد اٹھنے کے کیلے سوجاتے ہیں۔
پانچواں دن ۔میٹرہارن کی چڑھائ۔ہم سورج کے نکلنے سے پہلے نا شتہ کرتے ہیں۔ ہم چھوٹی رسیوں کی مدد سے ٹیلوں پر چڑھایئ کرتے ہیں۔ ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم میٹرہارن چودہ ہزار چھ سوچورانوے فٹ کی چوٹی پر پہنچ جاتے یہاں میٹرہارن پر سویز۔اٹالین سرحد ملتی ہے۔ یہ دن بہت اچھا ہے۔ سب اس اونچایئ سے چاروں طرف کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہارنلی ھٹ تک واپسی میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد کیبل کار کے اسٹیشن کو چلتے ہیں۔کیبل کار میں ایک مختصر سفر کے بعد ہم زرمٹ میں ہیں۔
﴿﴾
چترال
پیارے بھیا۔
مجھے آپ کا یورپ کا سفر اور میٹرہارن کی چڑھائ کا پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ کو یاد ہے جب آپ نے سو' گول' پچیس سال کی عمر سے پہلے ۔'کرنے ' کے لے بنائے تھے! میں نے صرف ایک ہی گول بنایا تھا " ایسا اچھا کام کروں کہ سارا جہاں سعادیہ کو جان جائے گا ۔" اور میں نے کہا تھا کہ باقی گول میں بھی آپ کے ساتھ ہونگی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گی۔ میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ میں سوچتی ہوں، کیا جسمین آپ کی اسطرح سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ جیسے میں کرتی؟
میں پچھلے چھ ماہ سے 'افغانہ' ویب سایئٹ کے انگلش اور اردو رومن سیکشن پر کام کررہی ہوں اور سوات یونیورسٹی میں پشتو سیکھ رہی ہوں۔ بازار میں سب لوگ مجھے پختون سمجھتے ہیں۔ نسیمہ نے مجھے تربیت دے کر کہا کہ وہ اب صرف پشتو اور اردو کی ویب سایئٹ کو سنھبالے گی۔ بھیا اب میں بلکل اکیلی انگلش اور اردو رومن سیکشن کو سنھبالتی ہوں۔ تم دیکھنا۔ تم اپنی ساد پر فخر کرو گے!
لیکن اب مجھے بیچینی رہتی ہے۔ مجھے شان کو دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ فلیڈ میں ہوتا ہے اور دنوں تک اس سے بات نہیں ہو پاتی۔ اسکے کام میں بہت خطرہ ہے اور مجھے ہمشہ اس کی فکر رہتی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کام کرنا چا ہتی ہوں تا کہ میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔
ہمارے خانذادیوں کے نیٹ ورک میں اب تمام صوبہ سرحد کے ضلعوں میں کم ازکم ایک خان ذادی خفیہ ممبر ہے۔ کئی ضلعوں میں، مثلاً سوات میں تو ہر تحصیل سے ایک یا دو خانذادیاں ممبر ہیں۔
پچھلے مہنیہ ہمیں ایک مخبر سے پتہ چلا کہ چترال میں ' خا و' خاندان میں ایک بارہ سالہ لڑکی کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے اور اس نے ہماری خفیہ خان ذادی سے مدد مانگی ہے۔ بھایئ یقین کر یں کہ یہ خان ذایاں اپنے خاندان کے مردوں سی اتنی ڈرتی ہیں کہ ہمیں بھی اپنے نام اور پتہ نہیں بتا تیں۔ لیکن شان نے دوسرے زرائع سے ان کے متلعق معلومات جمع کی ہیں۔ مثال کے طورپر اس خانذادی نے نہ تو اپنا نام دیا اور نہ ہی تحصیل کا۔ تھوڑی دیر مخبر سے بات کرنے سے ہم کو لڑکی اور تحصیل کا نام پتہ چلا۔
اس صورت میں شان اس لڑکی کو اسلام آ باد تک پہنچانے کا انتظام کرے گا۔ پشاور سے ایک دوسری تنظیم اس لڑکی کو ملک کے کسی حصہ میں ایک خفیہ گھر میں بھیج دے گی۔
شان کے ساتھی اکبر بھائ کو جاڑے دار بخار آیا تھا۔ شان کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ میں نے بڑی خوشامد کی شان بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ میں اسکے ساتھ جاؤں۔
آپکی ننھی۔ سعادیہ
﴿﴾
افغانہ
" میرا کام پشاور سے چترال کے راستہ کی نشان دہی کرنا تھا۔ چترا ل سے پشاور، ہوایئ جہازکے سفر میں پہچان کر پکڑے جانے کا خطرہ تھا ،اور فلایئٹ صرف پہلی اپریل سے بیس اگست تک تھیں۔ فلایٹ کا بھروسہ نہیں تھا، کبھی پرانے فوکر جہازوں کی مرمت کی وجہ سے اور کبھی موسم خراب ہونے کی وجہ سے فلایٹ نہیں جاتی۔ لیکن اچھے موسم میں پچاس منٹ میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ سڑک بہتر ذریعہ تھا۔درگایئ مالاکنڈ کے نال روڈ سوات تک، دِیر اور پھر لاری پاس(درّہ)۔ لیکن درّہ سردی کے موسم میں بند ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دِیر سے چترال صرف ستر کلومیٹر ہے لیکن خراب سڑک موسم اور مڈ سلایڈ کی وجہ سے چودہ یا پندرہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ چار بائ چار، ملیٹری چھوٹی جیپ گاڑی ہو نا بلکل ضروری ہے۔ ہم پشاور سے۔' دیر' تک بس بھی لے سکتے ہیں۔” شان نے کہا ۔ صرف ایک راستہ آنے جانے کا ہے اگر ہمارا راز کھل گیا تو آسانی سے پکڑے جایئں گے۔ دوسرا راستہ شندور پاس سے گلگت جانے کا ہے جسکا سفر ٢٥ گھنٹے کا ہے۔ شا ن نے کہا کہ ہمیں جنگل کے متعلق معلومات ہونا چاہیں۔
میں نے کہا۔ "جنگل میں جپسی قوم 'گو وجر' رہتی ہے۔"
"لڑکی کے متعلق ہمیں اور کیا پتہ ہے؟ "
میں نے شان کو بتایا کہ عمر ١٢سال کی ہے۔ قد ٤ فٹ ٦ انچ کا، وزن ٤٠ پاونڈ اور رمپور وادی میں رہتی ہے۔ زبان 'خوور' ہے۔ تھوڑی سی پشتو بولتی ہے او ر ا سکول جاتی ہے۔
کیا یہ لڑکی پکے ارادہ والی ہے ؟کیونکہ اگر اس نے ارادہ بدل دیا تو یہ سفر بہت مشکل ہوجائے گا۔” شان جاناچاہتا تھا۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وقت کو بچانے کی لیئے ہوائی جہاز میں سفر کریں گے۔ اور ہمارے پاس واپسی کے تین ٹکٹ ہو ں گے۔ لڑکی ہمارا ۔" ٹارگیٹ" ہم سے علحیدہ سفر کرے گی۔ اگر اس کام میں کوئ روکاوٹ نہ ہویئ تو ہوائی جہاز سے ہی واپس لوٹیں گے ورنہ جنگل کا راستہ اخیتار کریں گے۔ میں ایک فرانسی عورت کا کردار کروں گی اور شان ایک گائیڈ کا۔ شان نے گائیڈ کا اور ایک ٹرانسپورٹ اپریٹر کا بھی پرمٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں نے ایک برقعہ اور ایک پاکستانی کپڑوں کا جوڑا رکھ لیا اورایک بارہ، تیرہ سال کی عمرکے لڑکے اور لڑکی کی لئے ڈھیلی قمیض، اسکارف، پتلون اور جوتے، بھی خرید کر رکھ لی۔ان کے علاوہ تین، آدھے لیٹر والی پانی کی پلاسٹک کی بوتل بھی رکھ لیں۔ ہائی اسکول میں، میں نے جنگل میں سروائول (بقا) کی کلاس لی تھی اس لے مجھ کو پتہ ہے کی کیا چیزیں ضروری ہیں۔ میں نے آرمی واٹر فلاسک، ٹارپ، چار خیمہ کو لگانے والی سلاخیں، سو فٹ لمبی رسی اور ہوا سے بھرا سے جانے والا تین کمبل اور تکیہ اور ایک چھوٹا ہوا کی پمپ رکھ لیا۔
ایک چھوٹا مچھلی پکڑنے کا جال، ڈفل بیگ میں رکھ لیا۔ اور دوسری اشیا ء بھی۔ ایک دیڑھ فٹ میچٹ (اسپیشل چاقو) کو چمڑے کے کیس میں رکھ کر ڈفل بیگ کی بیرونی جیب میں رکھ لیا۔ شان ڈفل بیگ رکھے گا اور میں ایک بیک پیک رکھوں گی۔بیک پیک میں قطب نما، واٹر پروف ماچیس، سویز آرمی چاقو، پندرہ، پندرہ پروٹین بار، نمک، کالا نمک، سرخ مرچ، انٹی بایوٹِک گولیاں، فرسٹ ایڈ کا باکس اور واٹر کو صاف کرنے والی گولیاں بھی رکھ لیں
پی۔آی۔ اے نے موسم کی وجہ سے فلایٹ کنسیل کردی۔ شان نے ولیز ایم تھرٹی ایٹ جیپ کرایہ پر لی۔ چترال جانے کے تین راستہ ہیں۔ پشاور سے چلیں اور اگر کوئ روکاوٹ نہ ہوتو چکدارہ، دِیر اور لوآری درّہ سے تو بارہ گھنٹے کا راستہ ہے۔سادھو شریف، سوات، دیر اور لوآری درہ سے دس گھنٹے کا راستہ ہے۔ اگر گلگت سے چلیں تو گوپس، پھندار اور شاندور درہ بیس گھنٹے میں پہنچیں گے۔ ہم پشاور میں تھے ہمارا راستہ چارشادہ، پہاڑوں میں باڑ خیلا، ووچ، واردی پوست اور پھر چترال۔ راستہ بہت خوبصورت ہے۔ سٹرک پر درختوں کی لاین لگی ہے۔ فضا گنّے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔
ایک آدھ گھنٹے میں تخت بھائی سے گزرے شہر میں کافی چہل پہل ہے ۔تخت بھائ کے کچھ میلوں کے بعد پہاڑوں کو سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک اب بل کھا تی ہوئ اوپر چڑھتی ہے۔سڑک کے ساتھ ساتھ دریاِ پنج کورا بھی سانپ کی طرح بل کھاتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہر موڑ پر گاڑی روک کر تصویرں لو۔ نقاب پہنی ہویئ ننھی بچیاں بکریوں کی چرواہا ہیں۔ کہیں لڑکے پانی کے تیز بہاؤ میں کھیل رہے ہیں۔کہیں لوگ چرخی، ٹوکری اور رسی کی مدد سے دریا کو پار کر رہے ہیں۔
پہلا پولیس چیک پوانٹ پیمرگارا ہے۔ پولیس گارڈ نے ہم کو ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ 'دیر' میں ایک گھنٹا ٹہریں گئے۔ ہاتھ منہ دھویں گے اور کھانا کھائیں گے۔ دِیر پہنچ کر ہم ہوٹل المنصو میں ٹھرتے ہیں۔ ہمارا کمرہ چھت پر ہے۔ یہاں سے آپ تیرچ میر جو ہندو کش کی تیئس ہزار فٹ بلند چوٹی کا نام ہے اور جس کا ترجمہ' بڑے بزرگ ' ہے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت ٹیمپریچر ستّر درجہ ہے۔اور موسم خوشگوار ہے۔ میں نے برقعہ پہنا اور ہم نے شہر کی میں ا سٹریٹ اور دریا کی پار کرنے کی جگہ کا جایزہ لیا۔ اس کے بعد ہم نے نیچے جانے والا دروازے کی کنڈی لگادی اور چار پایاں کھلے برآمدہ میں لگا دیں۔شان اور میں نے آسمان پر جنوبی ستا رہ تلاش کیا۔ میں شان کو بتایا کہ ستاروں کی مدد سے کس طرح سے صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ہم صبح ناشتہ کے بعد لوواری درّہ کی طرف چلے۔ راستہ میں ہم نے سڑک کا جزیہ دیا۔ دوپہر تک ہم چترال کے شہر میں پہنچے۔ میں نے ہوٹل پی۔ٹی۔ڈی۔سی میں بُکینگ کرائ تھی۔ ہوٹل بازار میں ہے۔ میں نے پاکستانی شلوار اور قمیض اور ڈوپٹہ پہن رکھا تھا۔ہم نے چابیاں لیں اور کمرے کھولے۔کمرے میں ہر چیز موجود تھی۔
ہم نے شہر کی بڑی سڑک پر چہل قدمی کی۔ شاہی مسجد کے پاس دریا کے کنارے قلعہ چترا ل ' نو غورے 'کو دیکھا۔سہ پہر میں ہم گرم پانی کا چشمہ دیکھنے گے۔ پولو، چترال ہی میں شروع ہوا ہے۔یہاں پولو امیروں کا کھیل نہیں ہے بلکہ سب لوگ کھیلتے ہیں۔ دو گھنٹے دور وادیوں میں چھپا کلاشی قبیلہ ہے۔یہ لوگ کافر ہیں اور انکے ابا واجداد سکندر اعظم کی فوج سے ہیں۔ وہ بہت حسین اور خوبصورت لوگ ہیں۔
شام کوواپسی پر ہمیں ایک گھبرا یا ہوا جوان لڑکا ہوٹل کے باہر ملا۔اس نے شان کو روکا اور پشتو میں با تیں کرنے لگا۔ میں پیچھے دور کھڑی ہوگی۔ بات کو جلدی ختم کرکے وہ تیزی سے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گلی کے نُکّڑ پر غائب ہوگیا۔
شان نے کہا۔" لڑکی کے ماں اور باپ کو کسی طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہے۔ صرف ڈفل بیگ اور بیک پیک لینے کا وقت ہے۔ تم کرایہ نمٹاؤ اور قعلہ پر لڑکی سے مل کر میرا انتطار کرو۔ میں اوپر سے سامان لیکر آتا ہوں اور جیپ کو واپس کرکے تم دونوں سے ملتا ہوں۔ ہمیں جنگل کا راستہ لینا ہو گا۔"
قعلہ میں اندھیرا تھا۔ میں قعلہ کے باہر روک گی۔
میں نے جان کر بلند آواز سے انگلش میں کہا۔" میرا نام افغانہ ہے۔"
ایک کانپتی ہوی لڑکی قعلہ کی دیوار کے پیچھے سے سامنے آئ۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور جنگل کا رخ کیا۔ اور ہم دونوں درخت کے پیچھے چھپ گئے۔ تھوڑی دیر میں قلعہ کے سامنے ١یک سایہ نظر آیا۔ میں نے ایک پرندے کی آواز نکالی جس سے شان واقف تھا۔ شان تیزی سے ہماری طرف دوڑا۔
اگر پندرہ منٹ اور رُکے تو پکڑے جائیں گے۔" سرچ پارٹی اس وقت دریا کے کنار ے پر ہے۔ شان نے کہا۔
سادیۃ نے دفل بیگ سے ٹینیس شوز اور ڈھیلی پتلون اور قمیض نکال کر لڑکی کو دی اور کہا ان کو یپنے کپڑوں پر پہن لو۔شان نے ڈفل بیگ کندھے پر چڑھایا۔ میں نے قطب نما میں سمت دیکھی، بیک پیک پہنا اور فلیش لایٹ سنھبالی۔
" ہم لوگوں مشرق کی طرف بھاگنے لگے۔ پندرہ منٹ بعد ہم لوگ تقریباً ایک میل دور تھے۔ لڑکی ہانپ رہی تھی۔ میں کہا کہ ہم ہر پندرہ منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام کریں گے۔ ہم درختوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گے۔
میں نے پانی کی ایک ایک بوتل باٹی اور کہا میں صر ف ہر دن ایک بوتل دوں گی اور خالی بوتل مجھ کو واپس کرنا۔ اسکا مطلب ہے ہر دفعہ جب ہم رُکیں تو صرف ایک بڑا گونٹ پینا، زیادہ نہیں۔ ہمارے پاس صرف ١٥ پانی کی بوتل اور ٥ ١ پروٹین بارہیں اور ہم کو' دِیر' جانا ہے جو ایک سو پچاس میل دور ہے۔
لڑکی نے شان سے پشتو میں کہا۔ "کیا تم مرد نہیں ہو؟ یہ حکم چلاتی ہے۔”
شان نے کہا۔" یہ ہم کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔اس کا کہنا مانو۔"
میں نے ٹوٹی پشتو میں کہا۔" ہم اس علاقہ سے واقف نہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ میٹھا پانی کہاں ہوگا؟"
لڑکی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں نے قطب نما میں سمت دیکھی، دریا پنج کورا کو سیدھے ہاتھ پر رکھا اور مشرق کیطرف تیزی سے چلنا شروع کردیا۔ ہم اندھیرے کی وجہ سے حفاظت سے تھے۔ جنگل کی نباتات کی وجہ ہے رفتار میں کمی آگی تھی۔ چھ گھنٹے بعد ہم رُکنے اور سونے کا منصوبہ بنایا۔ شان نے دو درخت ایسے تلاش کے جو ایک دوسرے سے سات یا آٹھ فٹ د ور تھے اور ان کے درمیان صاف زمین تھی۔ہم نے کچھ سوکھے پتہ اٹھا کر چھوڑے پتہ شمال کیطرف اُڑے۔
" یہ کیوں کرتی ہو؟ " لڑکی نے پوچھا۔
میں ہوا کا رخ معلوم کررہی ہوں۔" میں نے اسکو بتایا۔"
ہمارا خیمہ جنوب شمال ہوگا۔اور ڈھکا ہوا حصہ جنوب میں ہوگا۔ شان نے کمر کی اونچائی کے مطابق رسی درختوں کے درمیان باندھ دی۔ میں نے ٹارپ رسی پرلٹکایا۔ شان نے ٹارپ کو خیمہ کیطرح دو سلاخوں کی مدد سے زمین میں گاڑ کر باندھا۔ اور درمیان میں تیسری سلاخ پہلی دو سلاخوں کے درمیان برابر فاصلہ پر لگا کر اس سے بھی ٹارپ باندھ دیا۔ میں نے ایک دری ٹارپ کے نیچے بچھا ئی ا ور ڈفل بیگ اور بیک پیک کو اونچا لٹکادیا۔
" لڑکی نے پوچھا یہ کیوں؟ "
" تاکہ جانور گھسیٹ کر نہ لے جا یئں۔” میں نے جواب دیا۔
شان نے اپنی گھڑی میں چھ بجے کا الارم لگا یا۔ ہم تینوں دری پر لیٹ کرسوگئے۔ صبح، شان اور میری آنکھ الارم کے بجنے سے پہلے کھلی۔ صبح کی روشنی ہونے لگی تھی۔ ہم نے قریبی ٹیلہ پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھا۔ دور دور تک صنوبر، سرو کے درخت نظر آرہے تھے۔ لیکن ایک طرف ہم پانی کی لہروں کی چٹانوں سے ٹکرانے کی آوازسن رہے تھے۔ درختوں کے درمیان سے اب ہم نے پانچ سو گز کے فاصلہ پر دریا کو بہتا دیکھا ۔
شان نے کہا ۔" چلو نہائیں۔"
اور ہم دوڑ کے دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کنارے پر بڑے پتھروں کے درمیان ایک پانی کا تلاب بند گیا تھا۔ شان نے اپنی قمیض اتاری اور میں نے اس کو گدگدی کرنا شروع کردیا۔ اس نے پیچھا چھوڑانے کی کوشش کی جب کام نہیں بنا تو مجھ کو گود میں لے کر تالاب میں پھنک دیا۔ پانی ٹھنڈا تھا اور میں بھیگ گی۔ میں نے اپنے کپڑے اتار دے اور تیرنے لگی۔ شان پہلے تو ہچکچایا لیکن پھر وہ بھی کپڑے اتار کر پانی میں آگیا۔ اُ س نے میری طرف تیرنا شروع کیا۔ جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں کھڑی ہوگی میں نے اپنی باہیں شان کے گلے میں ڈال دیں۔ اُس نے مجھے اپنی باہوں میں لیکر میر ی پشانی کوچوما۔ پھر میری ناک پر پیار کیا اور میرے نیچلے ہونٹ کو پیار کیا۔ اور ہم دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیار کرنے لگے۔
میں نے شا ن سے کہا ۔"اب ہم لوگوں کو یہاں سے چل دینا چاہیے اس سے پہلے وہ ہم کو ڈھونڈ لیں۔"
ہم نے جلدی جلدی کپڑے پہنے لڑکی ا بھی تک سور ہی تھی۔
" چلو اُٹھو۔ جاؤ دریا میں منہ دھو کر آؤ۔” میں چائے بناتی ہوں۔ " تم کیسے چائے بناو گی، آگ تو نہیں ہے۔" " آگ بنانا سیکھے گی؟" اس نے کہا "ہاں۔"
دیکھو ہم اس درخت کے نیچے چولھا بناتے ہیں تاکہ دھواں اوپر کھلی فضا میں نا پہنچ سکے۔ اب تم اس چھوٹی کدال سے ایک آٹھ سے دس انچ چوڑا اور اتنا ہی گہرا گڑھا کھودو۔ میں بھی ایک گڑھا تمہارے گڑھے سے آٹھ سے دس انچ دور اتنا ہی چوڑا اور مگرتمہارے گڑھے سے دو سے چار انچ زیادہ گہرا کھودوں گی۔ میرا گڑھا ہوا کے رخ میں ہے۔جب دونوں گڑھے تیار ہوجایئں گے ہم ددنوں گڑھوں کو نیچے سے ملادیں گے۔ ہوا میرے گڑھے سے داخل ہوکر تمہارے گڑھے میں نیچے سے داخل ہوگی اور آگ کو جلتا رکھے گی۔ ہم زمین کے اندر اس لئے آگ جلارہے ہیں کہ اس کو چھپانے میں آسانی ہوگی ۔
شان سوکھی چھال، سوکھی گھانس، سوکھی لکڑیاں لیکر آیا۔
میں نے پہلے سوکھی چھال لڑکی کے گڑھے میں بچھائ ۔یہ سوکھی چھال سوختہ کہلاتی ہے۔ یہ چمک کے جلتی ہے۔میں نے اس پر سوکھی گھانس بچھائ۔یہ آگ کو سلگاتی ہے۔ اس پر میں نے سوکھی لکڑیاں رکھ دیں۔ یہ ایندھن ہے میں نے ماچس سے آگ جلا دیئ۔
" اب تم جاؤ منہ دھو کر آؤ۔ "
میں نے کیتلی میں تین کپ پانی ڈال کر آگ پر رکھ دیا۔ جب لڑکی واپس آِئ۔ چائے تیار تھی اور شان نے تمام چیزیں ڈفل بیگ میں بھر لیں تھیں۔ ہم تینوں نے گرم گرم چائے پی اور ایک ایک پروٹین بارکھائ۔ میں اور لڑکی نے آگ کے گڑھوں کو مٹی سے بھر دیا۔ اور ہمارے وہاں موجود ہونے کے نشانات مٹادیے۔ شان نے تین مضبوط سی بیت کی طرح شاخیں بنایئں۔کچھ پتھر جیب میں رکھنے کے لئے دے ا ور لڑکی سے ہنس کر کہا۔
" ہو سکتا ہے کہ تندوے سے ملا قات ہوجائے تو مڑنا یا جھکنا مت اور نا ہی بھا گنا۔ اپنے ہاتھ اوپر اٹھنا تا کہ بڑی لگو۔ اگر وہ حملہ کی تیاری کرے تو اس پر پتھر پھنکنا۔ تمام بلی کے رشتہ دار بلیوں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ کبھی بلی کو پرندہ کی تا ک میں بیٹھا ہے؟"۔
لڑکی نے کہا۔ " ہاں دیکھا ہے نا اسکی دم ہلنے لگتی ہے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں" ۔
" اگر قریب آے تو لکڑی سے مارنا۔ ہم سب اس کو ماریں گے۔"
اب ہم ایک گھنٹہ چلتے اور دس منٹ کا وقفہ لیتے۔ پانی پیتے اور ایک چوتھائ پروٹین بار کھاتے۔ ہم چار گھنٹے کے بعد دوپیر کا کھانا کھا نے رُکے۔میں نے لڑکی سے آگ کے گھڑے بنانے کو کہا۔ شان شکار کی تلاش میں گیا۔ میں ایندھن جمع کی۔ شان نے جال میںچھ دریایئ مچھلیاں پکڑیں۔ ہم نے سب کو صاف کرکے آگ پر سینک کر پکا یا۔ تازی مچھلی بڑی مزے دار تھی۔
لڑکی نے مجھ سے سوال کیا۔ "شان کے پاس گھڑی ہے لیکن تم کو بغیر گھڑی کے وقت پتہ ہوتا ہے۔"
میں نے درختوں سے دور ہو کر زمین پر ایک گول دایرہ بنایا۔ اس کے درمیان ایک نطف قطرکے برابر ڈھنڈی گاڑدی۔ قطب نما سے شمال معلوم کیا اور ڈھنڈی کا رخ اسکی طرف کردیا۔ سایہ ایک بجے پر تھا۔
"مگر تم تو یہ نہیں کرتی۔”
" میں دوسرے سایہ استمعال کرتی ہوں جیسے درخت، پہاڑی وغیرہ۔"
اپنی موجودگی کے نشان مٹانے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ شام کو پھر ہم نے کیمپ کیااور دوپہرکی تیارکی ہویئ مچھلی کھایئ۔ دریا سے خالی بوتلیں بھریں۔ ہم تینوں روکے ہوے پانی میں تیرے ( کپڑوں کے ساتھ۔ بھئی جان )۔ یہ لڑکی بہت متجس اور کھوجی تھی۔ اس نے مجھ سے معلوم کیا کہ اگر ہمارا قطب نما کھوگیا تو کیا ہم بھی کھو جایئں گے۔
میں نے ہنس کر کہا ، نہیں۔ لوگوں نے ہمشہ ستاروں کی مدد سے سفر کیا ہے۔تم نے 'عقد' یا سات سہلیوں کا جھمکا کا ۔ نام سننا ہے جی نہیں۔
شمالی ستارہ کا؟ جی ہاں۔ آسمان میں دیکھو کیا تم شمالی ستارے کو دیکھ سکتی ہو؟
"ہاے اللہ وہاں تو ہزاروں ہا ستارے ہیں مجھے کیا پتہ کون سا ہو گا ؟"
سات چمکتے ستاروں کو ڈھونڈو وہ سب سے زیادہ روشن ہونگے۔وہ سب مل کر ایک ہنڈل والے کھانا پکانے کے برتن کی طرح لگیں گے۔ ہنڈل میں تین ہوں گے اور چار پیالہ کی شکل بنایئں گے۔
" ہاں مجھے نظر آرہا ہے باجی۔اور پیالہ کے اوپر ایک بڑا اور ان سے بھی زیادہ روشن ستارہ ہے۔" " یہ شمالی ستارہ ہے۔" میں نے کہا۔
مگر میں ' باجی ' کا نام سن کر چونک گی۔ بھیا نے فلیڈ ورکر کی ٹرینگ میں کہا تھا کہ لڑکیوں سے ذاتی اور جذباتی رشتہ مت قائم کرنا ورنہ یہ تم دونوں کے لے تکلیف کا باعث ہوگا۔
" ہمارا کام انکو ظلم سے بچانا ہے ان سے دوستی نہیں۔”
یہ لڑکی تو اتنی بہادر ہے کہ اس نے ماں باپ بہن اور بھایئ کو ہمشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ بہت سمجھدار ہے۔ سیکھتی جلدی ہے۔ بہت مصوم ہے کہ خطرہ کا احساس نہیں۔ بہت پیاری ہے اور مجھے باجی کہتی ہے۔ مگر نہیں میں ذاتی اورجذباتی رشتہ نہیں قائم کروں گی۔
دن میں ہم نے تیز رفتار رکھی۔ ہمارا ہر ایک گھنٹہ کے بعد دس منٹ کا آرام ہمیں طویل فاصلے کو آسانی کے ساتھ مکمل کرنے میں مدد دے رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی۔ سرو، صنبور، چنار اور جونیپر کے درختوں کی خوشبو سے جنگل مہک رھا تھا۔ سب سے پہلے شان نے تندوے کو دیکھا اس نے اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھا دے۔ میں جلدی لڑکی کو اپنا اور شان کے درمیان کی اور اپنے ہاتھ بلند کے۔ لڑکی نے فوراً ہماری نقل کی۔ شان اور میں نے تندوے کو بلند آواز میں ڈرانے کیلے چیغنا چلانا شروع کیا۔ تندوے نے ایک منٹ تک ہماری طرف دیکھا۔ پھر موڑ کر بھاگ لیا۔میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اس کو گلے سے چپٹا لیا۔
تیسرے روز ہمیں دو جوان گلہ بان نظر آے۔ شان نے ان سے بات کی۔
یہ نیچی ذات کے' گوجار' ہیں اور' دِیر' تک جارہے ہیں۔ ان کی مطابق یہاں سے دو دن کا راستہ ہے۔
" کیا خیال ہے ؟ کیا ہم ان کے ساتھ چلیں؟" شان نے کہا۔ میں نے کہا ۔"کیا وہ ہماری حفاظت کریں گے؟" " اگر وہ ہم کو اپنی مہمان گیری میں لیں تو ضرور حفاظت کریں گے۔” شان نے کہا
"میں گروپ کے سردار سے مل کر آتا ہوں۔”
" کیا تم نے ان کو تندوے کے مطالق بتایا۔ہاں مگر تندوے ' پروٹیکژن لسسٹ ' پر ہیں اس لے اگر وہ آپکی بکریاں بھی لے جائے تو آپ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
ملک میں تین کروڑ گوجر ہیں۔ گوجر ذات، قوم، یا ایک برادری کو کہتے ہیں۔ گوجر، مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسایئ بھی ہوسکتا ہے۔ گوجر برادری میں تین رتبہ ہیں۔ ایک گوجر وہ جو زمیندار ہیں اور زمین، گائے، بھنیس، بکری اور دنبہ کے گلّون کے ما لک ہیں۔ دوسرے گوجر وہ ہیں جو ایک جگہ رہتے ہیں اور زمیندارکے لئے زمین کی کاشت کاری اور گلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ تیسری کلا س کے گوجر خانہ بدوش گلّہ بان ہیں۔
گوجروں کا سردار مجھ سے مل کر بہت خوش ہواور جب اس کو پتہ چل کہ میں پشتو بھی بولتی ہوں تو وہ امریکہ کے مطلق سب کچھ جانا چاہتا تھا۔ شام میں کھانا کھانے کے بعد گانے اور ناچ کی محفل جمی۔ چترالوں کو ناچ اور گانے کا بہت شوق ہے۔ اگرچہ وہ نسلی پٹھان نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنی مناست کے لحاظ سے ناچ کو اختیار کر لیا ہے۔ ہم نے دو دن گلہ بانوں کے ساتھ گزارے۔ ہم نے