Jump to content

باتیں

From Wikisource
باتیں (1942)
by سعادت حسن منٹو
319928باتیں1942سعادت حسن منٹو

بمبئی آیا تھا کہ چند روز پرانے دوستوں کے ساتھ گزاروں گا اور اپنے تھکے ہوئے دماغ کو کچھ آرام پہنچاؤں گا، مگر یہاں پہنچتے ہی وہ جھٹکے لگے کہ راتوں کی نیند تک حرام ہو گئی۔ سیاسیات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیڈروں اور دوا فروشوں کو میں ایک ہی زمرے میں شمار کرتا ہوں۔ لیڈری اور دوا فروشی، یہ دونوں پیشے ہیں۔ دوا فروش اور لیڈر دونوں دوسروں کے نسخے استعمال کرتے ہیں۔ خیر کہنا یہ ہے کہ سیاسیات سے مجھے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی گاندھی جی کو سینما سے۔ گاندھی جی سینما نہیں دیکھتے، میں اخبار نہیں پڑھتا۔ اصل میں ہم دونوں غلطی کرتے ہیں۔ گاندھی جی کو فلم ضرور دیکھنے چاہئیں اور مجھے اخبار ضرور پڑھنے چاہئیں۔

خیر صاحب بمبئی پہنچا۔ وہی بازار تھے، وہی گلیاں تھیں، جن کے پتھروں پر پانچ برس میرے نقش قدم بکھرتے رہے تھے۔ وہی بمبئی تھی جہاں میں دو ہندو مسلم فساد دیکھ چکا تھا۔ وہی خوبصورت شہر تھا، جس کے اندر میں نے کئی بے گناہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے خون کے چھینٹے اڑتے دیکھے تھے۔ وہی جگہ تھی جہاں کانگرس نے امتناع شراب کا قانون پاس کر کے ان ہزارہا مزدوروں کو بے کار کر دیا تھا جو تاڑی نکالتے تھے۔ وہی مقام تھا جہاں میں نے کئی دھوبیوں کو جو بارہ بارہ گھنٹے پانی میں کھڑے رہتے تھے، رات کو اپنے جسم میں گرمی پیدا کرنے کے لئے زہریلی اسپرٹ پیتے دیکھا تھا۔۔۔ وہی عروس البلاد تھی جس کے گھونگھٹ کا ایک حصہ حریری ہے اور دوسرا موٹے اور کھردرے ٹاٹ کا۔۔۔ وہی بمبئی تھا جہاں اونچی اونچی خوبصورت عمارات کے قدموں میں فٹ پاتھوں پر ہزار ہا مخلوق رات کو سوتی ہے۔

میں نے بس میں سوار ہوتے ہوئے ایک عورت کو دیکھا، پھر دیکھا۔۔۔ اب کے غور سے دیکھا۔۔۔ آہ، حقیقت میرے سامنے تھی ان کالے حلقوں کی صورت میں جو اس لڑکی کی شربتی آنکھوں کے نیچے پڑے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا (نام نہیں بتاؤں گا) یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟ میں نے اس لڑکی کو دلی میں دیکھا تھا۔ مغلوں کی دلی میں جنہیں مقبرے بنانے کا بہت شوق تھا۔ کتنی بھولی بھالی تھی۔ صرف دس مہینے پہلے وہ کس قدر معصوم تھی۔ میں اس سے ڈر کے مارے بات تک نہ کرتا تھا۔ میں اس کو دیکھتا تھا تو مجھ پر رعب سا طاری ہو جاتا تھا۔ پر اب میں نے اسے دیکھا تو مجھے اس کے اور اپنے درمیان کوئی چیز بھی حائل محسوس نہ ہوئی۔ میں نے اس کے کاندھے پر بے دھڑک ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھا، ’’کہو، کیسی گزر رہی ہے؟‘‘

اس کی آنکھوں میں ایک دھندلی سی چمک پیدا ہوئی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دیا جو کبھی مندر میں جلتا تھا، اب دیر سے کسی ویشیا کے گھر میں جل رہا ہے۔ دیر سے بہت دیر سے۔۔۔ یہ بمبئی کتنی لڑکیوں کو عورتوں میں تبدیل کر چکا ہے۔۔۔؟ عصمت کی حفاظت ضروری ہے مگر پیٹ کی بھوک مٹانا بھی ضروری ہے۔ یہاں بمبئی میں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو بھوک بھی لگتی ہے۔

دو ہندو مسلم فساد اس شہر میں دیکھ چکا ہوں۔ بنائے فساد وہی تھی، پرانی! مندر اور مسجد۔۔۔ گائے اور سور۔ مندر اور مسجد اینٹوں کا ڈھیر، گائے اور سور، گوشت کا ڈھیر۔۔۔ پر اس دفعہ ایک نیا فساد دیکھنے میں آیا۔ ہندو مسلم فساد نہیں۔ مندر اور مسجد کا جھگڑا نہیں، گائے اور سور کا قضیہ نہیں، ایک نئے قسم کا ہلڑ، ایک نئے قسم کا طوفان جو بمبئی میں قریباً چھ روز مچا رہا۔

ایک روز ٹیلی فون پر کسی صاحب نے مجھے بتایا کہ رات رات میں کانگرس کے تمام لیڈر گرفتار کر لئے گئے، گاندھی جی سمیت جو کانگرس کے ممبر نہیں ہیں۔۔۔ میں نے کہا اچھا بھئی، گرفتار کر لئے گئے ہیں تو ٹھیک ہے، یہ لوگ گرفتار اور رہا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مجھے کوئی اچنبھا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک دوست نے رنگ کیا تو معلوم ہوا کہ شہر بھر میں ہلڑ مچ گیا ہے۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا ہے، گولی چلائی ہے۔ فوج بلائی گئی ہے۔ بازاروں میں ٹینک چل رہے ہیں۔۔۔ دو تین روز تک میں گھر سے باہر نہ نکل سکا۔ اخبار پڑھتا رہا اور لوگوں سے بھانت بھانت کی خبریں سنتا رہا۔

مسلم لیگ مسجد ہے، کانگرس مندر ہے۔ لوگوں کا یہی خیال ہے۔ اخبار بھی یہی کہتے ہیں، کانگرس سوراج چاہتی ہے، مسلم لیگ بھی، لیکن دونوں کے رستے جدا جدا ہیں۔ دونوں مل جل کر کام نہیں کرتے۔ ا س لئے کہ مندر اور مسجد ساخت کے اعتبار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ میرا خیال تھا کہ یہ جو فساد ہو رہا ہے، اس میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مصروف پیکار ہو جائیں گے اور ان دونوں کے خون کا ملاپ جو مندروں اور مسجدوں میں نہیں ہوتا، موریوں اور بدرؤں میں ہوگا، مگر مجھے بہت تعجب ہوا، جب میرا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا۔

ماہم کی طرف ایک لمبی سڑک جاتی ہے۔ سڑک کے آخری سرے پر مسلمانوں کی مشہور خانقاہ ہے۔ مسلمان مردہ پرست مشہور ہیں۔ جب بلوہ شروع ہوا اور شہر کے اس حصے تک پہنچ گیا۔ لڑکوں اور بچوں نے فٹ پاتھ کے درخت اکھیڑ اکھیڑ کر بازار میں رکھنے شروع کئے تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ چند ہندو لڑکے لوہے کا ایک جنگلہ گھسیٹ کر اس طرف لے جانے لگے، جدھر خانقاہ ہے۔ چند مسلمان آگے بڑھے، ان میں سے ایک نے بڑی آہستگی سے ان لڑکوں سے کہا، ’’دیکھو بھئی ادھر مت آؤ۔۔۔ یہاں سے پاکستان شروع ہوتا ہے۔‘‘ سڑک پر ایک لکیرکھینچ دی گئی، چنانچہ بلوہ پسند لڑکے چپ چاپ اس جنگلے کو اٹھا کر دوسری طرف لے گئے۔ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان‘‘ کی طرف پھر کسی ’’کافر‘‘ نے رخ نہ کیا۔

بھنڈی بازار مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ وہاں کوئی شورش نہ ہوئی۔ مسلمان وہ مسلمان جو ہندو مسلم فساد میں سب سے پیش پیش ہوتے تھے، اب ہوٹلوں میں چاء کی پیالیاں سامنے رکھ کر فساد کی باتیں کرتے تھے اور ٹھنڈی سانسیں بھرتے تھے۔ میں نے ایک مسلمان کو اپنے دوست سے کہتے سنا، ’’ہمارے جناح صاحب دیکھئے ہمیں کب آرڈر دیتے ہیں۔‘‘

اسی بلوے کا ایک لطیفہ سنئے۔ ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیئے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

میں جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں کر سچین زیادہ آباد ہیں۔ ہر رنگ کے کرسچین، سیاہ فام کرسچینوں سے لے کر گورے چٹے تک آپ کو تمام شیڈ یہاں مل جائیں گے۔ جامنی رنگ کے کرسچین بھی میں نے یہاں دیکھے ہیں، جو خود کو ہندوستان کی فاتح قوم یعنی انگریزوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس بلوے میں ان لوگوں کا میں نے برا حال دیکھا۔ پتلونوں میں مردوں کی اور سکرٹس میں عورتوں کی ننگی ٹانگیں کانپتی تھیں جب فساد کی خبریں آتی تھیں۔۔۔ ڈر کے مارے مردوں نے ہیٹ لگانے چھوڑ دیے۔ ٹائیاں گلے سے الگ کر دیں۔ عورتوں نے سکرٹس اور فراک پہننے چھوڑ دیے اور ساڑھیاں پہننا شروع کر دیں۔

ہندو مسلم فساد کے دنوں میں ہم لوگ جب باہر کسی کام سے نکلتے تھے تو اپنے ساتھ دو ٹوپیاں رکھتے تھے۔ ایک ہندو کیپ، دوسری رومی ٹوپی، جب مسلمانوں کے محلے سے گزرتے تھے تو رومی ٹوپی پہن لیتے تھے اور جب ہندوؤں کے محلے میں جاتے تھے تو ہندو کیپ لگا لیتے تھے۔ اس فساد میں ہم لوگوں نے گاندھی کیپ خریدی۔ یہ ہم جیب میں رکھ لیتے تھے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوتی تھی، جھٹ سے پہن لیتے تھے۔ پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئی ہے۔۔۔ زندہ باد ٹوپیاں!

میرے سامنے دیوار پر ایک کلاک آویزاں ہے۔۔۔ ابھی ابھی اس نے بارہ بجائے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چار بجے ہیں۔ جب چار کا وقت ہوگا تو یہ بارہ بجائے گا۔ اس میں کوئی خرابی واقع ہو گئی ہے۔ میں نے اب سوچنا شروع کیا ہے تو مجھے اس کلاک میں اور ہمارے عوام کی موجودہ حالت میں صد گونہ مماثلت نظر آتی ہے۔ کلاک کی طرح ان کے کل پرزوں میں بھی کوئی خرابی ہے۔ یوں تو کلاک کی سوئیوں کی طرح وہ اپنا کام ٹھیک کرتے ہیں، لیکن ان کے فعل اور اس کے ظاہری نتیجہ میں بہت تضاد ہوتا ہے، بالکل اس کلاک کے مانند جو بارہ کے عمل پر چار دفعہ ٹن ٹن کرتا ہے اور چار بجنے پر بارہ دفعہ ٹن ٹن کرتا ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.