بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
Appearance
بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو
تم کو الفت نہیں مجھ سے یہ کہا تھا میں نے
ہنس کے فرماتے ہیں تم اپنی محبت دے دو
ہم ہی چوکے سحر وصل منانا ہی نہ تھا
اب ہے یہ حکم کہ جانے کی اجازت دے دو
مفت لیتے بھی نہیں پھیر کے دیتے بھی نہیں
یوں سہی خیر کہ دل کی ہمیں قیمت دے دو
کم نہیں پیر خرابات نشیں سے بیخودؔ
مے کشو تو اسے مے خانے کی خدمت دے دو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |