Jump to content

باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیا

From Wikisource
باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیا
by مظفر علی اسیر
316961باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیامظفر علی اسیر

باغ میں پھول کھلے موسم سودا آیا
گرم بازار ہوا وقت تماشہ آیا

سارباں ناقۂ لیلیٰ کو نہ دوڑا اتنا
پاؤں مجنوں کے تھکے ہاتھ ترے کیا آیا

ایک نالہ نے مرے کام کئے باغ میں وہ
گل کو تپ آئی تو شبنم کو پسینہ آیا

رو کے میں نے جو کہا آپ کی ہے چاہ مجھے
ہنس کے بولے کہ بڑا چاہنے والا آیا

جھاڑ دی گرد جو دامن کی کبھی ہم نے اسیرؔ
ہنس کے فرمایا کہ تم کو بھی سلیقہ آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.