بتاؤں کیا کہ مرے دل میں کیا ہے
Appearance
بتاؤں کیا کہ مرے دل میں کیا ہے
سوا تیرے تری محفل میں کیا ہے
بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے
تو ہی تو ہے بھری محفل میں کیا ہے
کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی
چراغ سرحد منزل میں کیا ہے
بجز نقش پشیمانیٔ قاتل
نگاہ حسرت بسمل میں کیا ہے
جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی
خدا معلوم اس کے دل میں کیا ہے
مآل ہستی موہوم معلوم
عزیزؔ اس شغل لا حاصل میں کیا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |