بتائیں کیا کہ آئے ہیں کہاں سے ہم کہاں ہو کر
Appearance
بتائیں کیا کہ آئے ہیں کہاں سے ہم کہاں ہو کر
نشاں اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں گھر کا بے نشاں ہو کر
لبھانے کو دل شیدا کے ساری پردہ داری تھی
عیاں ہو تم نہاں ہو کر نہاں ہو تم عیاں ہو کر
ہماری خاک کے ذرے فنا ہو کر بھی چمکیں گے
عروج اپنا دکھائیں گے یہ نجم آسماں ہو کر
دل آوارہ کیوں تجھ کو خیال کوئے جاناں ہے
ارے ناداں کہاں جا کر رہے گا بے نشاں ہو کر
یہ دور مے کشی ہر وقت محو دید رکھتا ہے
کہاں آنکھوں میں یہ غفلت رہے خواب گراں ہو کر
مسلماں ہو کے ترک بت پرستی اے معاذ اللہ
خدا کو ہم نے پہچانا ہے شیدائے بتاں ہو کر
یہ بار معصیت منزل کڑی اور شام تنہائی
چلے ہیں کیا سمجھ کر ہم بھی رسوائے جہاں ہو کر
ابھی کیا جانے کیا کیا رنگ وہ اے شوقؔ بدلے گا
زمیں پر اک کرے گا حشر برپا آسماں ہو کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |