بتائے دیتی ہے بے پوچھے راز سب دل کے
Appearance
بتائے دیتی ہے بے پوچھے راز سب دل کے
نگاہ شوق کسی کی نگاہ سے مل کے
نکالے حوصلے مقتل میں اپنے بسمل کے
نثار تیغ کے قربان ایسے قاتل کے
میں اس پہ صدقے جو جائے کسی کی یاد میں جاں
کسی کو چاہے میں قربان جاؤں اس دل کے
بڑی اداؤں سے لی جان اپنے کشتے کی
ہزار بار میں قربان اپنے قاتل کے
غبار قیس نہیں ہے تو کون ہے لیلیٰ
کوئی تو ہے کہ جو پھرتا ہے گرد محمل کے
وہ پھوٹ بہنے میں مشاق ہیں یہ رونے میں
رہیں گے دب کے نہ آنکھوں سے آبلے دل کے
مہار ناقۂ لیلیٰ تو کھینچ لے اے آہ
ہٹا دے دست طلب بڑھ کے پردے محمل کے
وہ دل میں ہیں مگر آنکھوں سے دور ہیں بیدمؔ
پڑا ہوا ہوں میں پیاسا قریب ساحل کے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |