Jump to content

بتوں کا ذکر کرو واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہے

From Wikisource
بتوں کا ذکر کرو واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہے
by حاتم علی مہر
303367بتوں کا ذکر کرو واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہےحاتم علی مہر

بتوں کا ذکر کرو واعظ خدا کو کس نے دیکھا ہے
شرار سنگ موسیٰ کے لیے برق تجلیٰ ہے

یہ ہندوستان ہے یاں پربتوں کا روز میلا ہے
خدا جانے وہ بت اے مہرؔ دیبی ہے کہ درگا ہے

یہ ہندوستان ہے یاں پربتوں کا روز میلا ہے
کوئی کالی بھوانی کوئی دیبی کوئی درگا ہے

بتان ہند میں نام خدا کب کوئی تجھ سا ہے
تری زلفیں ہیں کالی اے صنم تو آپ درگا ہے

دل نالاں تمہارے حلقۂ گیسو میں کہتا ہے
میں ہندوستان میں ہوں کافروں نے مجھ کو گھیرا ہے

یہ کس کافر کی خاطر مہرؔ چکر میں تو رہتا ہے
یہ کس کے واسطے گردش فلک کے چرخ پوجا ہے

سیہ رومال گوری گوری گردن میں لپیٹا ہے
گلے ملوا دیا شام سحر کو کیا تماشا ہے

گلا وہ گورا گورا اس پہ اک رومال کالا ہے
وہی عالم مری آنکھوں میں اب دن رات پھرتا ہے

تصور اس صنم کا ہے ہمیں کعبہ سے کیا مطلب
چراغ اپنا ہے داغ دل ہے جو مندر میں جلتا ہے

کیا ہے خوں مرے دل کا بلدان اس کو کہتے ہیں
غم فرقت وہ کافر ہے کہ درگا پاٹھ کرتا ہے

جدا ہے نعمت دنیا سے لذت بوسۂ لب کی
وہ جوگی ہو گیا جس نے یہ موہن بھوگ چکھا ہے

شرارت سے شرارت ہے بتو للہ باز آؤ
جلاتے ہو جو میرے دل کو تم کیا یہ بھی لنکا ہے

حلال اس نے کیا خون مسلماں وائے بے دردی
ترا دست حنائی کافر اب یہ رنگ لایا ہے

ہمیشہ ہے یہ نالاں اس صنم کی یاد میں یا رب
جسے ہم دل سمجھتے تھے وہ ناقوس کلیسا ہے

بڑا اندھیر ہے کیوں کر نہ ہو دل کو پریشانی
سراسر پیچ کرتی ہے بلا زلف چلیپا ہے

عجب عالم نظر آیا ترے کوچہ میں او قاتل
کہیں کوئی سسکتا ہے کہیں کوئی تڑپتا ہے

کہاں وہ قد کہاں یہ کندہاے نا تراشیدہ
نہ سرو ایسا ہے نے شمشاد ایسا ہے نہ طوبیٰ ہے

بتا جائز ہے کس مذہب میں خون بے گنہ ظالم
تو ہندو ہے مسلماں ہے یہودی ہے کہ ترسا ہے

سنے مردہ تو جی اٹھے بدن میں روح پھر آئے
گلے میں اے صنم نام خدا کیا تان پلٹا ہے

خدا عالم ہے مضمون خیالی ہیں تصور میں
نہ مجھ کو کچھ تعلق ہے نہ میری اس کو پروا ہے

خدا جانے کیا کس بت نے کافر اک مسلماں کو
جنیو ہے گلے میں مہرؔ کے ماتھے پہ ٹیکا ہے

کیا کافر نے کافر مہرؔ سے مرد مسلماں کو
جنیو رشتۂ تسبیح داغ سجدہ ٹیکا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.