بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
Appearance
بتوں کی کاکلوں کے دیکھ کر پیچ
پڑے ہیں دل پہ کیا کیا پیچ پر پیچ
طریق عشق بے رہبر نہ ہو طے
کہ ہے یہ رہ نہایت پیچ در پیچ
نہ ہووے دل کی تکل کٹ کے برباد
اگر ڈالے نہ وہ تار نظر پیچ
وہ زلف اس کی جو ہے پر پیچ و پر خم
کمند جاں ہے اے دل اس کا ہر پیچ
نظیرؔ اک روز اپنے زخم سر کو
جو باندھا ہم نے دے کر بیشتر پیچ
نظر کرتے ہی اس سرکش نے اک بار
کہا کر کے سخن کا مختصر پیچ
دعا دیجے ہماری تیغ کو آج
کہ جس نے آپ کو بخشا یہ سر پیچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |