Jump to content

بت پرستی سے نہ طینت مری زنہار پھری

From Wikisource
بت پرستی سے نہ طینت مری زنہار پھری
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303391بت پرستی سے نہ طینت مری زنہار پھریوزیر علی صبا لکھنؤی

بت پرستی سے نہ طینت مری زنہار پھری
صبح سو بار خریدی گئی سو بار پھری

بارہا قہقہوں میں تو نے اڑایا ہے اسے
شمع روتی تری محفل سے ہے سو بار پھری

چل بسی فصل خزاں موسم گل آ پہنچا
لے مبارک ہو ہوا بلبل گل زار پھری

ایک جا بھی نظر آئی نہ اثر کی صورت
گرتی پڑتی نہ کہاں آہ‌ دل زار پھری

زلف جاناں کے جو سودے میں ہوا سرگشتہ
سائے کی طرح مرے ساتھ شب تار پھری

بھیک منگوائی فقیروں کی طرح شاہوں کو
ایسی نیت تری اے چرخ ستم گار پھری

اے صباؔ دیکھ لیا ہم نے اسی تک سب تھے
پھر گیا سارا جہاں جب نظر‌ یار پھری


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.