برسات اور شاعر
Appearance
تھا درختوں کو ابھی عالم حیرت ایسا
جیسے دلبر سے یکایک کوئی ہو جائے دو چار
ڈالیاں ہلنے لگیں تیز ہوائیں جو چلیں
پتے پتے میں نظر آنے لگی تازہ بہار
سنسناہٹ ہوئی جھونکوں سے ہوا کے ایسی
چھٹ گئیں ہوں کہیں لاکھوں ہی ہوائی یکبار
رعد گرجا ارے وہ دیکھنا بجلی چمکی
ہلکی ہلکی سی وہ پڑنے لگی بوندوں کی پھوار
رات تاریک ہے آیا ہے امنڈ کر بادل
میں اکیلا نہ کوئی یار نہ کوئی غم خوار
سرد جھونکوں میں ہوا کے ہے لطافت اور دل
اس کا خواہاں ہے نہیں ملنے کے جس کے آثار
ایسی بے چینی خدایا نہ ہو دشمن کو نصیب
اس سے بد تر نہ کسی کو ہو الٰہی آزار
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |